بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالر لانےکی سکیم پر فیصلہ نہیں ہوا:حکومت

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالر لانے کی ایک مجوزہ سکیم پر غور کر رہی ہے، تاہم ابھی اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے جمعے کو بتایا کہ حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالر لانے کی ایک مجوزہ سکیم پر غور کر رہی ہے، تاہم ابھی اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

کرنسی ایکسچینج ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 24 ارب ڈالر اکٹھے کرنے اور پاکستان کے اندر سے تین سے چار ارب ڈالر جمع کرنے کی سکیمیں آفر کی تھیں۔

اس پیشکش پر ڈاکٹر عائشہ کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈالرز ایمنسٹی سکیم ناقابل عمل ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت ملک کے اندر ڈالر ڈکلیئر کرنے کی ایسی ایمنسٹی جاری نہیں کر سکتی۔‘

ملک بوستان کی اس مجوزہ سکیم کے حوالے سے ایک سابق گورنر سٹیٹ بینک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالر لینے کے مختلف فارمولے ہو سکتے ہیں، ڈالرز ہیجنگ اور سویپ بندوبست ان میں زیادہ کامیاب سمجھے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ڈالر سویپ سکیم ناقابل عمل دکھائی دے رہی ہے۔

’آئی ایم ایف اس پر اعتراض کرسکتا ہے، پاکستان میں گذشتہ دو سال میں ڈالر کی قدر 40 فیصد تک بڑھی ہے، حکومت کے لیے یہ سکیم زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے، اوورسیز پاکستانی اس سکیم میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی غیر یقینی پائی جاتی ہے جن ملکوں میں اس طرح کی سکیم کامیاب ہوئی ہیں وہاں سیاسی استحکام ہے۔‘

سکیم کیا تھی؟

پاکستان فاریکس ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے انڈیپینڈٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا 1998 میں بھی اسی طرح کی سکیم متعارف کرائی گئی تھی۔

’ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا دی گئی تھیں اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 400 ملین ڈالرز ہوچکے تھے، حکومت کو ڈالرز سویپ کی سکیم پیش کی تھی، 10 ارب ڈالرز فراہم کیے تھے۔‘

ملک بوستان نے مزید بتایا کہ ’ڈالر کے ادلے بدلے کی سکیم کے تحت حکومت کو ماہانہ ایک ارب ڈالرز فراہم کرسکتے ہیں اور اگلے دو سال میں 24 ارب ڈالر فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

’حکومت کی منظوری ملتے ہی ہم اوورسیز پاکستانیوں سے ڈالرز وصول کرنا شروع کردیں گے اور پاکستان اس بحران سے نکل آئے گا۔‘

ملک بوستان نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک اس سکیم کا گارنٹیر ہوگا۔ کمرشل بینک یہ ڈالر وصول کریں گے اور فنڈز کی وصولی کے لیے مخصوص اکاؤنٹس کھولیں گے۔

’اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ معاہدہ کیا جائے گا اور بینک دو سال بعد ڈالر کا اضافی فرق دینے کے پابند ہوں گے۔‘  

’اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حکومت کو ڈالر واپس نہیں کرنے بلکہ صرف اضافی فرق ادا کرنا ہے۔‘

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ’اس سکیم پر پہلے بھی عمل درآمد ہو رہا ہے۔ ترکی نے بھی اسی ماڈل پر کام کیا ہے جس سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے اور کرنسی مضبوط ہوئی۔‘

ملک بوستان نے بتایا کہ ’اس وقت حکومت کو 400 ملین ڈالر ماہانہ فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم اس سکیم کے آنے کے بعد ماہانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر حکومت کو دے سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں اگر دو سو ڈالرز بھی دیں تو تین ارب ڈالرز اکٹھے ہوسکتے ہیں مگر ہم نے ماہانہ ایک ارب ڈالرز کا ہدف مقرر کیا ہے۔‘

’پاکستانی ماہانہ تین سے چارارب ڈالر دیں گے‘

 ملک بوستان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے اندر سے بھی تین سے چار ارب ڈالرز اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔

’اس کے لیے حکومت صارفین سے شناختی کارڈ پیش کرنے کی شرط ختم کرے، 15 ہزار سے کم ڈالر لانے والوں کے لیے شناختی کارڈ کی شرط نہ رکھی جائے۔‘

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف سے بھی بات کی گئی ہے۔  

’ایف اے ٹی ایف کی شرط 15 ہزار ڈالر سے اضافی رقم پر لاگو ہوتی ہے۔ صارفین کی مکمل جانچ پڑتال کو یقینی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت پیسہ ہے مگر لوگ ڈرے ہوئے ہیں، انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان کا پیسہ کہیں نہیں جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت