ایمنسٹی انٹرنیشنل کا افغان طالبان پر پنج شیر میں جنگی جرائم کا الزام

ایمنسٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی سکیورٹی فورسز نے صوبہ پنج شیر میں چھ افراد کو غیر قانونی طور پر قتل کیا، تاہم طالبان حکومت نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد پروپیگنڈہ قرار دیا۔

19 اگست 2021 کی اس تصویر میں ایک مسلح افغان شخص افغان سکیورٹی فورس کے ایک اہلکار کے ہمراہ صوبہ پنج شیر کے دارالحکومت بازار میں موجود ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے افغانستان میں طالبان حکومت پر صوبہ پنج شیر میں قتل و غارت سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا ہے۔

ایمنسٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی سکیورٹی فورسز نے اس صوبے میں چھ افراد کو غیر قانونی طور پر قتل کیا، تاہم طالبان حکومت نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد پروپیگنڈہ قرار دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق طالبان فورسز نے پنج شیر میں شہریوں کو نشانہ بنایا، ہراساں کیا اور قتل کیا۔ وہ بغیر کسی قانونی کارروائی کے قیدیوں کو پھانسی دیتے ہیں اور لوگوں کو ڈرانے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سہارا لیتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنیس کالامارڈ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ہتھکنڈوں نے، جو شہریوں پر مزاحمتی محاذ سے تعلق رکھنے کا الزام لگاتے ہیں اور انہیں ہراساں کرتے ہیں، پنجشیر کے لوگوں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہر عمل قابل نفرت ہے اور طالبان کے یہ اقدامات اجتماعی سزا کے مترادف ہیں، جو بذات خود انسانیت کے خلاف جرم ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’طالبان دیہاتوں سے مردوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہیں، انہیں بغیر کسی الزام کے قید کرتے ہیں اور دوسروں کو سبق دینے کے لیے انہیں مار دیتے ہیں۔‘

ایمنسٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان واقعات سے حاصل ہونے والی تصاویر کا تجزیہ کیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ یہ طالبان کی تصاویر ہیں جن میں چھ افراد کو ہاتھ باندھے ایک پہاڑی کی طرف چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

تنظیم کے مطابق: ’دیگر ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور طالبان عسکریت پسند ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ویڈیوز میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان بندوق بردار 19 سیکنڈ کے لیے گولی چلانا بند کر دیتے ہیں، جس سے پانچ افراد جان سے چلے جاتے ہیں، جنہیں پہاڑی سے نیچے گھسیٹ لیا جاتا ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا مزید کہنا تھا کہ تین واقعات میں طالبان فوجیوں نے قیدی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ چرواہے تھے اور اپنے جانوروں کو چراگاہوں کی طرف لے جا رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ ریکارڈ کیے گئے واقعات کی دستاویزات کا جائزہ لیں اور مجرموں کے خلاف منصفانہ سول عدالتوں میں مقدمہ چلائیں۔

طالبان کا ردعمل

دوسری جانب طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’منفی پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

انہوں نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا: ’ہم اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ افغانستان میں لوگ بغیر کسی مقدمے کے قتل ہوئے ہیں یا گرفتاریاں اور ظلم و ستم ہوئے ہیں۔‘

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا: ’ہم ہراساں کرنے کے ہر معاملے کو مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام میں ہراساں کرنے کا کوئی وجود نہیں، دستاویزات سے جو بھی ثابت ہوتا ہے، ان کے مطابق سزائیں تینوں عدالتوں کے فیصلوں کے بعد لگائی جاتی ہیں۔ ‘

افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ وہ شہریوں کو ہراساں کرنے یا قتل کرنے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہیں، لیکن ان کے بقول، ’کچھ شر پسند عناصر‘ جو ان کے ساتھ لڑ رہے تھے، چند ماہ قبل پنج شیر اور اندرابون میں میدان جنگ میں مارے گئے تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ’ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ مجھے بد اعتمادی، تقسیم اور نظام کے خلاف پیدا کرنے کی سازش لگتی ہے (اور) یہ درست نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا