استحکام پاکستان پارٹی: ’لگتا ہے سب کو زبردستی لایا گیا ہے‘

پہلی بار ایسا مشاہدے میں آیا کہ پارٹی قیادت یا کسی بھی رہنما کے آنے یا جانے پر کسی نے کوئی نعرہ تک نہیں لگایا۔

استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی جانب سے آج بروز جمعرات شام پانچ بجے نجی ہوٹل میں پریس کانفرنس کا دعوت نامہ صحافیوں کو موصول ہوا۔

فی الحال چونکہ پارٹی کی باقاعدہ کوئی میڈیا ٹیم یا میڈیا سیل نہیں ہے اس لیے ہر صحافی کو اپنے طور پر دعوت ملی۔ بہر حال صحافی ساڑھے چار بجے ہی پہنچ گئے اور کیمرے لگ گئے۔ ہال کافی وسیع تھا، ایک دیوار پر قومی پرچم سکرین پر لگا تھا اور ترانے چل رہے تھے۔

سکرین کے ساتھ ہی قطار میں لیڈروں کی کرسیاں لگی تھیں جن پر ناموں کی پرچیاں چپکائی گئی تھیں۔

ہال میں داخل ہوتے ہیں وہی علیم خان کے ملازم نظر آئے جو پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے عمران خان کے لیے تقریبات کا اہتمام کرتے تھے۔

وہاں موجود صحافیوں کی بڑی تعداد بھی کیمروں کے ساتھ کرسیوں پر موجود تھی تاکہ سوالات کیے جا سکیں۔

دائیں اور بائیں جانب دو دو قطاروں میں کرسیاں لگائی گئیں جن پر متحرک کارکن دکھائی دیے اور کئی سابق اراکین اسمبلی بھی بیٹھے تھے۔

ساڑھے پانچ بجے کے قریب اچانک آواز سنائی دی، ’ترین صاحب آ گئے!‘

انہیں مخصوص دروازے سے ہال میں لایا گیا۔ انہیں ملنے کے لیے ہال میں کئی لوگ کھڑے ہو گئے لیکن انہوں نے چند سے ہی مصافحہ کیا۔

انہیں عون چوہدری جو پہلے عمران خان کے ساتھ اسی طرح تقاریب میں بیٹھنے کی جگہ تک پہنچانے کے لیے رہنمائی کرتے تھے، جہانگیر ترین کو لے کر ان کی مخصوص کرسی تک لے گئے۔ ان کے فوری بعد علیم خان اندر آئے اس کے بعد سابق گورنر عمران اسماعیل اور عامر کیانی داخل ہوئے۔

فردوس عاشق اعوان، مراد راس، اور ترین گروپ کے نمایاں رہنما پہلے سے میں لائن میں لگی کرسیوں پر موجود تھے۔ فیاض چوہان کافی دیر پہلے سے الگ ایک کرسی پر افسردہ بیٹھے نظر آئے جو کسی سے بات نہیں کر رہے تھے۔ فواد چوہدری بھی اسی دوران نظر آئے وہ مین لائن کی بجائے ہجوم میں ایک سائیڈ پر بیٹھ گئے۔ عون چوہدری نے انہیں اٹھا کر مین لائن میں بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہاں کرسی خالی نہیں تھی۔

فواد چوہدری کافی اپ سیٹ لگ رہے تھے انہوں نے ان صحافیوں کو بھی دیکھ کر خوش دلی سے ملنا گوارا نہ کیا جن سے وہ کافی فرینک ہیں۔ پھر وہ دوسری جانب پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور کافی دیر تک ماتھے پر ہاتھ رکھ کر افسردگی کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔

عمران اسماعیل اور عامر کیانی بھی غم زدہ اور افسردہ تاثرات دیتے دکھائی دیے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان مرکزی قطار میں رکھی کرسیوں کے درمیان والی نشستوں پر بیٹھے تھے۔ پہلے علیم خان نے جیب سے صفحہ نکال کر میڈیا کے سامنے پڑھا، پھر جہانگیر ترین کو شعیب صدیقی نے خطاب کی دعوت دی۔

جہانگیر ترین بھی بہت سنجیدہ دکھائی دیے۔ وہ آمد پر بھی زیادہ جوش و خروش سے لوگوں سے ملتے دکھائی نہیں دیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بھی جیب سے صفحات نکالے اور پڑھنا شروع کر دیے۔ جب انہوں نے پریس کانفرنس ختم کی تو خلاف توقع شعیب صدیقی نے اعلان کیا کہ صحافیوں کو سوالات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اسی دوران چائے کے لیے کہہ دیا گیا مگر جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت سارے رہنما چلتے بنے۔

فروس عاشق اعوان جو میڈیا سے گفتگو کی شوقین ہیں، انہوں نے بھی میڈیا کے پر زور اصرار کے باوجود میڈیا سے گفتگو سے اجتناب کیا، بس چلتے چلتے ہم چند صحافیوں نے ان سے کچھ سوال پوچھے اور انہوں نے چلتے چلتے بددلی سے مختصر جواب دیے اور جلدی میں نکل گئیں۔

اس دوران رہنماؤں میں جو ایک ہی جماعت چھوڑ کر آئے ان میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا، نہ ہی ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کی، بلکہ پوری طرح ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی اجتناب کرتے رہے جیسے ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے ہوں۔

پہلی بار ایسا مشاہدے میں آیا کہ پارٹی قیادت یا کسی بھی رہنما کے آنے یا جانے پر کسی نے کوئی نعرہ تک نہیں لگایا۔

وہاں پر موجود صحافی بھی حیرانی کی کیفیت میں مبتلا تھے کہ ایک پارٹی کی لانچنگ پریس کانفرنس ہے اور یہاں کوئی واقف بھی صحافیوں سے غیر رسمی گپ شپ کرنے کو تیار نہیں۔

’لگتا ہے سب کو زبردستی لایا گیا ہے‘

وہاں موجود صحافی امداد سومرو کہنے لگے، ’لگتا ہے کہ ان کو یہاں زبردستی لایا گیا ہے یا یہ شرمندہ ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پہلی بار ہم سے مل رہے ہیں۔ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں خاص طور پر فواد چوہدری اور فیاض چوہان جو ہمیشہ پر اعتماد طریقے سے صحافیوں میں کہ شپ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں وہ بھی ایسے حواس باختہ ہیں کہ جیسے یادداشت میں ہم لوگ ہیں ہی نہیں، حالانکہ پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے روزانہ گپ شپ ہوتی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’خبریں چلانے یا ایشوز سے متعلق گپ شپ کرتے رہتے تھے لیکن آج پہچان بھی نہیں رہے۔‘

صحافیوں کے مطابق استحکام پاکستان پارٹی کی لانچنگ پریس کانفرنس ایسے نہیں تھی جیسے ایک نئی سیاسی جماعت پوری تیاری سے خود کو متعارف کراتی ہے تاکہ پہلا تاثر بہترین ظاہر کیا جائے۔

اتنی مختصر اور روکھے رویوں کے ساتھ پریس کانفرنس سے وہاں موجود صحافیوں کو مثبت تاثر نہ دے سکی۔

صحافی سلیم شیخ کے بقول، ’ابھی نہ پارٹی عہدے تقسیم ہوئے نہ ہی پارٹی رہنماؤں کو ذمہ داری سونپی گئی تو ایسا لگتا ہے سب جلد بازی میں ہوا اور متفقہ فیصلہ نہیں لگتا کیونکہ علی زیدی جہانگیر ترین سے ملاقات کے باوجود عمران اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔‘

ان کے خیال میں ایسا تاثر بھی قائم نہیں ہو سکا کہ پریس کانفرنس کے شرکا نے جہانگیر ترین اور علیم خان کو دل سے لیڈر ہی تسلیم کیا ہو کیونکہ ان کے آس پاس جانے یا ان سے بات کرنے میں بھی کسی کی دلچسپی دکھائی نہیں دی۔ صرف علیم خان، شعیب صدیقی اور عون چوہدری ہی متحرک دکھائی دیتے ہیں جیسے صرف انہیں کو کسی نے پریس کانفرنس کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی ہو۔‘

یہاں تک کہ اس موقعے پر پارٹی پرچم تک نہیں لہرایا گیا جبکہ فائنل کر میڈیا کو جاری کر دیا گیا ہے۔

ایسی صورت حال میں بیشتر صحافیوں کی رائے ہے کہ یہ پارٹی اس طرح جوش و خروش حاصل کرنے میں وقت لے گی جیسے باقی جماعتوں میں پایا جاتا ہے۔

سب سے زیادہ انحصار جہانگیر ترین پر ہے کہ وہ سرمایہ دار کے ساتھ کس طرح خود کو ایک لیڈر کے طور پر اپنی پارٹی اور عوام میں منواتے ہیں۔

لہذا سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان کو لیڈر ماننے والے جہانگیر ترین کو بھی اسی طرح لیڈر مانیں گے یا نہیں؟

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست