تنخواہوں اور پینشنز میں اضافہ، صنعتوں پر نیا ٹیکس نہیں ہوگا

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز قومی اسمبلی میں پیش کر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کی بجٹ تجاویز پیش کرنے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار وزیراعظم شہباز شریف سے مل رہے ہیں(وزیراعظم آفس)

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال (2023۔24) کے لیے بجٹ تجاویز قومی اسمبلی میں پیش کیں۔

بجٹ اجلاس دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر براہ راست آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

بجٹ کے اہم نکات

  • آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کے کل اخراجات 14460 ارب روپے ہوں گے، جن میں سے 7303 ارب روپے قرضہ جات پر سود، 1804 ارب روپے دفاع اور 1150 ارب روپے پی ایس ڈی پی پر خرچ ہوں گے۔
  • وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران ملک میں صنعتوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
  • وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے دعوی کیا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔
  • اسحاق ڈار نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا جاچکا تھا، امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے جس کے نتیجے میں اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی۔
  • ترقی کا ہدف 3 عشاریہ 5 فیصد رکھا گیا ہے۔
  • بزنس اور زرعی قرضوں کے لیے سود کی سبسڈی کے لیے 10 ارب رکھے گئے ہیں۔
  • زرعی قرضوں کی حد کو 2250 ارب تک بڑھایا گیا ہے۔
  • بیچوں کی درآمد پر ڈیوٹیز کو ختم کیا جا رہا ہے۔
  • بزنس اور زرعی قرضوں کے لیے سود کی سبسڈی کے لیے 10 ارب رکھے گئے ہیں۔
  • آئی ٹی برآمدات کے لیے 2026 تک انکم ٹیکس کو 0.25 کو برقرار رکھا گیا ہے۔
  • فری لانسرز کو 24 ہزار ڈالر تک سالانہ برآمدات تک سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔
  • فری لانسرز کی درخواست پر انکم ٹیکس گوشوارے ایک صفحے پر مشتمل ہوں گے۔  
  • آئی ٹی شعبے کو Small entaprises کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ ان پر رعایتی انکم ٹیکس کا قانون لاگو ہوگا۔
  • آئی ٹی کے کاروبار کے لیے 5 ارب روپے قرضے کے لیے رکھے گئے ہیں۔
  • اسلام آباد میں آئی ٹی سیکٹرز پر ٹیکس 15 سے 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔
  • آئی ٹی کے شعبے کے لیے قرضہ دینے والے بینکوں کو ان کے ٹیکس پر 20 فیصد کی رعایت دی جائے گی۔
  • پانچ ارب روپے کے ساتھ پاکستان اینڈوومنٹ فنڈ قیام کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے سکول طلبا و طالبات کو وظائف دیے جائیں گے۔
  • سمندر پار پاکستانیوں کے ترسیلات زر سے پراپرٹی خریدنے کی صورت میں دو فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔
  • ترسیلات زر کے لیے ڈائمنڈ کارڈر بنایا جا رہا ہے جو سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زیادہ بھیجنے والے کے لیے ہو گا۔
  • سمندر پار پاکستانیوں کو غیرممنوعہ بور لائسنس، سرکاری پاسپورٹ جاری کیا جائے گا، جبکہ سفارت خانوں تک انہیں رسائی بھی دی جائے گی۔
  • وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں شرح نمو کا تخمینہ 3.5 فیصد رکھا گیا جو ان کے بقول قابل عمل ہے۔
  • وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات جلد شیڈول ہیں ’اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
  • ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 135 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • لیپ ٹاپ سکیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
  • کھیلوں کی ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
  • خواتین کو بااختیار بنانے کی غرض سے 5 ارب رکھے گئے ہیں۔
  • یوتھ انٹرا پینیور کے لیے 3 سالوں کے لیے ای او پی سے شروع ہونے والے کاروبار پر 50 فیصد ٹیکس کمی کرنے کی تجویز کی جا رہی ہے۔
  • نوجوانوں کے لیے رعایتی شرح سود کے قرضوں کے لیے 5 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • تین سالوں کے لیے نئے گھر اور عمارتوں، تعمیراتی آمدن پر ٹیکس کی شرح پر 10 فیصد یا 50 لاکھ روپے تک رعایت دی جائے گی۔
  • بیرون ملک سے درآمد ہونے والے استعمال شدہ کپڑوں پر دس فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
  • سولر پینلز، بیٹریز اور انورٹرز کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
  • بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
  • یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے آ؁ٹا، اول، چینی، دالیں اور گھی پر ٹارگٹڈ سبسڈی کے لیے 35 ارب رکھے گئے ہیں۔
  • مستحقین کے علاج  اور امداد کے لیے بیت المال کے لیے 4 ارب رکھے گئے ہیں۔
  • یونانی ادویات پر سیلز ٹیکس کی شرح ایک فیصد کی جا رہی ہے۔
  • 1150 ارب روپے کا پی ایس ڈی پی تجویز کیا جا رہا ہے۔ 
  • 1804 ارب روپے دفاع کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • 1559 ارب روپے صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھا جا رہا ہے۔
  • کارکن صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کروائی جائے گی۔ 
  • آئندہ مالی سال کے دوران شرح نمو 3.5 فیصد ہو گی۔
  • آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 21 فیصد ہو گی۔
  • برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔
  • ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
  • ملکی و غیر ملکی قرضہ جات پر سود کی ادائیگی کے لیے 7303 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
  • آئندہ مالی سال کے دوران سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 714 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • سبکدوش سرکاری ملازمین کو پنشز کی ادائیگی کی غرض سے 761 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
  • آئندہ مالی سال کے دوران کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔
  • کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈوں کے ذریعے ادائیگی کی صورت میں جنرل سیلز ٹیکس 5 فیصد ہو گا۔ 
  • گاڑیوں کی درآمد پر 1300 سی سی گاڑیوں کی اوپر حد ختم کر دی گئی ہے۔
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاونس کی صورت میں ایک سے 16 گریڈ تک 35 فیصد اور 17 سے 22 تک 30 فیصد ہو گا۔
  • اسلام آباد میں کم از کم تنخواہ 35 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔
  • پینشنز میں 17.5 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔

 

اس سے قبل وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں اور مسائل سے متعلق بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے۔

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزرا اسحاق ڈار، احسن اقبال، اعظم نذیر تارڑ، ڈاکٹر مصدق ملک، خالد حسین مگسی، مولانا عبدالغفور حیدری، آغا حسن بلوچ اور منظور کاکڑ کمیٹی کے ارکان ہوں گے۔

وزیراعظم نے اسلام آباد میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے زیر صدارت بلوچستان عوامی پارٹی کے وفد سے ملاقات کے دوران کمیٹی قائم کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی بلوچستان کی خوشحالی سے منسلک ہے اور اس ضمن میں صوبے کے منتخب نمائندوں کا تعاون اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کی اہم اتحادی جماعت ہے جس نے حکومت کے ہر فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان