پاکستان کے پانچ شعبوں پر اربوں روپے کی ’ٹیکس چوری‘ کا الزام

یہ 956 ارب روپے پاکستان کے لیے کتنے اہم ہو سکتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ رقم پاکستان کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم جتنی ہے۔

اس تصویر میں پاکستان کی معروف ہاؤسنگ سوسائٹی میں تعمیر شدہ مکانات دکھائے گئے ہیں اور یہ تصویر 2 اکتوبر 2013 کو لی گئی تھی (اے ایف پی)

پاکستان شدید ترین مالی بحران کا شکار ہے جبکہ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کی رفتار سست پڑ چکی ہے لیکن دوسری طرف حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں صرف پانچ شعبے سالانہ 956 ارب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

عالمی ادارے Ipsos نے بدھ کو ایک مفصل رپورٹ جاری کی جس کے مطابق ریئل اسٹیٹ سالانہ 500 ارب، تمباکو 240 ارب، ٹائر 106 ارب، فارما 65 ارب اور چائے کا شعبہ 45 ارب روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

یہ 956 ارب روپے پاکستان کے لیے کتنے اہم ہو سکتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ رقم پاکستان کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم جتنی ہے۔

اس رقم سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پورا سال چلایا جا سکتا ہے۔ اس سے وفاق کا 10 سال کا تعلیمی بجٹ نکل سکتا ہے اور اس رقم سے پاکستان کی پوری آبادی کو صاف پانی میسر ہو سکتا ہے۔ 1700 کلومیٹر نئی موٹر ویز بنائی جا سکتی ہیں۔ مہمند ڈیم بنانے کی لاگت نکل سکتی ہے۔ 

پاکستان میں صرف پانچ شعبے قومی خزانے کو اگر اس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں تو مجموعی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں ہے۔ پاکستان کی وہ معیشت جو کسی حساب کتاب میں نہیں آتی وہ کل معیشت کا 40  فیصد ہے یہی دراصل ٹیکس چوری کی بنیاد بھی بن جاتی ہے۔ رپورٹ میں ان پانچ شعبوں کا مکمل احاطہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح ٹیکس چوری کا باعث بنتے ہیں:

ریئل اسٹیٹ سیکٹر 500 ارب روپے‘

زمینوں اور گھروں کی خرید و فروخت کا جو مروجہ طریقہ پاکستان میں رائج ہے وہ خاصا الجھا ہوا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جس شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے ا س کا مکمل ڈیٹا کسی ادارے کے پاس ہے نہ ہی ایف بی آر کے پاس ہے۔ اس  شعبے میں نقد رقم کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں اور سرکار کے پاس وہ رسیدیں آتی ہیں جن کی قیمت بہت کم دکھائی جاتی ہے اور یہ بعض صورتوں میں  مارکیٹ ریٹ سے 60 سے 70 فیصد کم ہوتی ہے۔

کس زمین کی کم سے کم قیمت کیا ہو گی؟ اس کا تعین بھی پنجاب حکومت کے اس ایکٹ کے ذریعے ہو رہا ہے جس کو 1899 میں بنایا گیا تھا اور مزید حیران کن بات یہ بھی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں 2020 سے پہلے ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں تھا۔

ایف بی آر نے 2019 میں اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کا ایک پیمانہ بنایا مگر پراپرٹی مافیا کے دباؤ  کی وجہ سے دو بار اسے اس ٹیکس کو کم کرنا پڑا اور ابھی تک ایف بی آر اسلام آباد میں بھی پورا پراپرٹی ٹیکس لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ملک کے باقی بڑے شہروں میں صورت حال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔

سگریٹ 240 ارب روپے‘

پاکستان میں سگریٹ کی صنعت پر سب سے زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی سگریٹ کی سمگلنگ اور بغیر ٹیکس کے سگریٹ کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ بنانے والی 40 کمپنیاں سگریٹ کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں فروخت ہونے والے کل سگریٹ کا 38 فیصد تیار کرتی ہیں۔

حکومت کی جانب سے سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں جون اگست میں 25 فیصد اور اس سال فروری میں 150 فیصد اضافہ کر دیا گیا جس کی وجہ سے سگریٹ کی غیر قانونی فروخت، جعلی سگریٹ کی تیاری اور سمگلنگ کا راستہ کھل گیا۔

وہ کمپنیاں جو قانونی طور پر کام کر رہی تھیں ان کی پیداوار میں ایک سال کے دوران نصف حد تک کمی ہو گئی۔ اس وقت مارکیٹ میں سگریٹ کی غیر قانونی فروخت کا حصہ 45 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان میں پہنچتے ہیں۔ گذشتہ مالی سال میں سگریٹ کے شعبے میں ٹیکس چوری 80 ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر 240 ارب روپے ہو چکی ہے۔

’ٹائر اور گاڑیوں کا انجن آئل 106ارب روپے‘

پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں آٹو موبائیل سیکٹر میں کافی  اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے گاڑیوں کے ٹائروں کی طلب بھی کافی بڑھ گئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ساڑھے تین کروڑ گاڑیاں ہیں۔

وزارت مواصلات کا کہنا ہے کہ 2030 تک پاکستان میں چھ کروڑ 50 لاکھ گاڑیاں ہوں گی یعنی ہر سال 34 لاکھ مزید گاڑیاں سڑکوں پر آئیں گی۔

اس وقت پاکستان میں 65 فیصد ٹائر سمگلنگ کے ذریعے آ رہے ہیں جبکہ 20 فیصد مقامی طور پر تیار کردہ ہیں اور 15 فیصد در آمد کیے جاتے ہیں۔

ایف بی آر کے گذشتہ سال کے ڈیٹا کے مطابق اسے ٹائروں سے سالانہ 20 ارب روپے کا ٹیکس ملا۔ یہ پیسہ ٹائروں کی 35 فیصد قانونی تجارت کے ذریعے حاصل ہوا جبکہ اس شعبے میں جو غیر قانونی تجارت ہے وہ قومی خزانے کو سالانہ 35 ارب روپے کا نقصان پہنچاتی ہے۔ جبکہ جو ٹائر درآمد کیے جاتے ہیں ان کی مالیت کم ظاہر کر کے حکومت کو مزید نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

اس طرح یہ شعبہ مجموعی طور پر قومی خزانے کو سالانہ 50 ارب روپے کا نقصان پہنچاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گاڑیوں کے انجن آئل کی تجارت میں بھی حکومت کو سالانہ 56 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے کیوں کہ اس شعبے سے منسلک 95 فیصد تاجروں کا کہیں پر اندراج ہی نہیں ہے۔

پاکستان سالانہ 40 کروڑ لیٹر گاڑیوں کا انجن آئل استعمال  کرتا ہے جس میں سے نصف کی فروخت کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ پاکستان میں کل استعمال ہونے والے تیل کا 30 فیصد غیرقانونی طور پر دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے گاڑیوں کے انجن خراب ہو جاتے ہیں۔

’فارما سوٹیکلز 56 ارب روپے‘

پاکستان میں فارما سوٹیکلز کے شعبے نے پچھلے چند سالوں میں 12 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کی ہے جبکہ اسی دوران دنیا میں اس شعبے کی ترقی کی شرح پانچ سے آٹھ فیصد ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی جعلی ادویات اوران کی سمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

2020 میں اس شعبے کی مارکیٹ کا مجموعی حجم 500 ارب روپے تھا۔ ملک بھر میں سات سو 75 فارما سوٹیکلز کمپنیاں ادویات کی تیاری میں مصروف ہیں جن میں سے ٹاپ 15 کمپنیوں کا مارکیٹ میں حصہ 59 فیصد ہے۔ جبکہ ٹاپ 100 کمپنیوں کا اس شعبے کے کل ٹیکس میں حصہ 97 فیصد ہے۔

پاکستان میں جعلی دوائیوں کا بہت چرچا ہوتا ہے لاہور میں 2011 کے دوران جعلی ادویات کے استعمال سے صرف تین ہفتوں میں 100 لوگ مر گئے تھے۔

ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں سات فیصد ادویات جعلی فروخت ہو رہی ہیں۔ پاکستان فارما سوٹیکلز مینوفکچرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوائیوں کی لاگت میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

جب مارکیٹ میں دوائیوں کی قیمتیں بڑھیں گی تو پھر جعلی ادویات کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ جبکہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی کل ادویات کا دو فیصد  حصہ سمگلنگ کا ہے۔ ان تمام مدوں میں سرکاری خزانے کوسالانہ 65 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

’چائے 45 ارب روپے‘

پاکستان دنیا  بھر میں چائے درآمد کرنے میں پہلے نمبر پر ہے۔ چائے کے بڑے  درآمد کنندگان کا حصہ اس میں 55 سے60 فیصد ہے جبکہ باقی چھوٹے درآمد کنندگان ہیں جو زیادہ تر کھلی چائے بیچ کر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

افغانستان میں چائے درآمد کر کے پاکستان میں بیچ دی جاتی ہے سمگلرز پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ چائے چونکہ مہنگی ہے اس لیے اس کی جعلی تیاری بھی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے جس سے لوگوں کی صحت کا خاصا نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے چائے کی درآمد 60 کروڑ ڈالر کی حد پر کھڑی ہے حالانکہ پاکستان کی آبادی میں گذشتہ چند سالوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے جس سے اندازہ  ہوتا ہے کہ اس شعبے میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہورہی ہے۔ چائے کے درآمد کنندگان کے مطابق یہ چوری سالانہ 45 ارب روپے کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ