سندھ: پیپلز پارٹی نے بلدیاتی سربراہ کے لیے کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا؟

صوبے کے واحد ضلعے تھرپارکر میں ضلع وائس چیئرمین کے لیے کملا بھیل کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میونسپل کمیٹی مٹھی کی وائس چیئرپرسن کے لیے خاتون سمترا منجیانی کو نامزد کیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی بہن آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ 6 مارچ 2020 کو لاہور میں ایک جلسے میں شریک ہیں (اے ایف پی)

کراچی سمیت سندھ بھر میں میئر، ڈپٹی میئر، ضلع حکومت اور میونسیپل کمیٹیوں کے چیئرمین کے لیے سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک بھی خاتون امیدوار کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں میئر، ڈپٹی میئر اور بلدیاتی اداروں کے دیگر سربراہوں کے انتخابات 15 جون کو ہوں گے۔ کاغذات نامزدگی جمعہ نو جون اور ہفتہ 10 جون کو جمع کرائے جاسکیں گے۔ 

صوبے میں بلدیاتی حکومتوں کے سربراہوں کے انتخابات 15 جون کو ہوں گے۔

صوبے کے واحد ضلعے تھرپارکر میں ضلع وائس چیئرمین کے لیے کملا بھیل کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میونسپل کمیٹی مٹھی کی وائس چیئرپرسن کے لیے خاتون سمترا منجیانی کو نامزد کیا گیا ہے۔

خواتین کی حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمٰن نے کہا کہ خواتین کو نظرانداز کرنا باعث تشویش ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مہناز رحمٰن نے کہا: ’ہم چاہتے ہیں خواتین کو بھی اعلی عہدوں پر اسی طرح موقعہ ملنا چاہیے جیسے مردوں کو ملتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ تھر پارکر جیسے ضلع میں ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کو ضلعی سطح پر وائس چیئرمین اور میونسپل کمیٹی میں بھی وائس چیئرمین بنانے پر خوشی ہوئی ہے۔

’بلدیاتی نظام میں بڑی تعداد میں خواتین کونسلرز بنتی رہی ہیں۔ ماضی میں نفیسہ شاہ اور دیگر خواتین ضلعی ناظمہ بھی بنیں۔ اس بار بھی ہم توقع کر رہے تھے کہ خواتین کو نامزد کیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

’خواتین کو میئر، ڈپٹی میئر، ضلع حکومت اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے لیے نظرانداز کرنا باعث تشویش ہے۔‘

مہناز رحمٰن کے مطابق: ’سیاسی عمل میں عورتوں کی شرکت کے اضافے کے لیے ہم کئی سالوں سے مہم چلا رہے ہیں۔ اس لیے ہی ہمیں خواتین کی مخصوص نشستوں کا بھی مطالبہ کرنا پڑا کیوں کہ بہت کم عورتیں سیاست میں تھیں۔‘

سندھ میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم سندھ سُہائی آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹرعائشہ دھاریجو کے پی پی پی کی جانب سے خواتین کو بلدیاتی حکومت کے سربراہ کے طور نامزد نہ کرنا افسوس کی بات ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹرعائشہ دھاریجو نے کہا: ’پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ پی پی پی نے خواجہ سراؤں کو سیاست میں آنے کا موقعہ دیا۔ مگر پارٹی کی پالیسی کچھ اور ہی ظاہر کرتی ہے۔

’شمالی سندھ کے گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ سمیت دیگر اضلاع میں پی پی پی لیڈیز ونگ کی خواتین سارا سال ایک کارکن کی طرح پارٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔ جب کوئی جلسہ ہوتا ہے تو خواتین کو خواتین کارکناں کی چار، چار بس لانے کا کہا جاتا ہے۔ مگر انہیں ان کا حق نہیں جاتا ہے۔ اس لیے ہی سندھ میں مورثی سیاست قائم ہے اور اہل خواتین کو موقعہ نہیں ملتا۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف

پی پی پی سندھ کے صدر نثاراحمد کھوڑو نے چند روز قبل صوبے کے تمام ضلعی حکومت، ٹاؤن کمیٹیز کے سربراہان اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے لیے پارٹی کے نامزد امیدوار کا اعلان کیا تھا۔

ان کا موقف جاننے کے لیے جب رابطہ کیا گیا تو ان کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے نام نامزد کیے گئے تھے جو نثار احمد کھڑو نے پڑھ کر سنائے ہیں اور وہ اس پر بات نہیں کرسکتے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور پارٹی قیادت کی جانب سے سکھر کے میئر کے نامز بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے کہا ہے کہ پی پی پی نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں، خواتین، مزدوروں کو ترجیح دی ہے اور اس بار سندھ کی بلدیاتی حکومت میں خواجہ سرا کیمونٹی کو بھی پارٹی کی جانب سے نامزد کیا گیا ہے۔

ارسلان اسلام شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ارسلان اسلام شیخ کے مطابق : ’ضلعی سطح پر خاتون چیئرپرسن نامزد نہ ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پارٹی کی جانب امیدواروں کی نامزدگی پارٹی کی مرکزی قیادت کرتی ہے، جس میں کسی عہدے کے لیے پارٹی نامزدگی کے لیے آنے والی درخواستیں دینے والوں کی سینیارٹی کے علاوہ بہت سے پہلو دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘

’یہ تو پارٹی کی مرکزی قیادت ہی بتا سکتی ہے کہ ضلعی چیئرپرسن یا ناظم کے لیے پارٹی نامزدگی کی کتنی درخواستیں آئیں اور ان کی سینارٹی اور دیگر معاملات کیا تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ خواتین کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کی بھرپور حامی رہی ہے۔'

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے اس بار بلدیاتی حکومت کے لیے متعدد خواتین کو یونین کونسلز کے چیئرپرسن کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ سکھر ضلع کی دو یونین کونسلز پر خواتین چیئرپرسن منتخب ہوئی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ صوبے کے کئی اضلاع میں بڑی تعداد میں خواتین کونسلرز، یونین کونسلز کی وائس چیئرمین کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ تھرپارکر میں ضلع کی وائس چیئرپرسن بھی خاتون کو نامزد کیا گیا ہے۔‘

ماضی میں سندھ کے چار اضلاع میں خواتین ناظمہ رہی ہیں۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے 1999 میں جب نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو ’قومی تعمیر نو بیورو‘ کے نام سے نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔

’قومی تعمیر نو بیورو‘ کا پہلا چیئرمین جنرل (ر) تنویر نقوی کو لگایا گیا، مگر بعد میں دانیال عزیز کو مقرر کیا گیا۔ دانیال عزیز نے 2001 میں پرانے بلدیاتی نظام کو تبدیل کر کے بلدیاتی نظام کے اختیارات کو عملی طور پر نچلی سطح تک منتقل کر دیا۔

اس بلدیاتی نظام  میں ضلعی سربراہ کو ناظم کا نام دے کر انہیں ضلعی سطح پر تمام تر اختیارات دے دیے گئے۔ ضلعی ناظم کے پاس نہ صرف ضلع کے تمام مالی اختیارات تھے، بلکہ ضلعی سطح پر تمام محکموں کا اختیار بھی ناظم کو دے دیا گیا۔

اتنے اختیارات کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی نظر ضلع کی ناظم شپ پر تھی۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے نواب شاہ ضلع کے لیے فریال تالپور اور خیرپور ضلع کے نفیسہ شاہ کو ضلعی ناظم نامز کرکے کایاب کرایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں حیدرآباد ضلعے کو توڑ کر بنائے گئے نئے ضلعے ٹندوالہیار کے ناظم کے لیے میں اس وقت کے وزیراعلی سندھ ارباب غلام رحیم کی سربراہی میں قائم حکومتی اتحاد کی جانب سے راحیلہ مگسی کو نامزد کرکے کامیاب کرایا گیا۔

دوسری بار ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں مسلم لیگ ق کی جانب سے جیکب آباد ضلع کی ناظمہ سعیدہ بیگم کو کامیاب کرایا گیا۔

کراچی کا میئر کس جماعت کا بنے گا؟

سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے آخری مرحلے میں مخصوص نشستوں پر امیدواروں کے چناؤ کے بعد الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق کراچی میں میئر کے انتخاب کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 155 نشستیں، جماعت اسلامی کے پاس 130 نشستیں ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی 62 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے۔ مسلم لیگ ن کی مجموعی طور پر 14 نشستیں ہیں۔ جے یو آئی ایف کے پاس چار نشست ہیں۔ ٹی ایل پی کی ایک نشست ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایوان 367 اراکین پر مشتمل ہے۔ کسی بھی جماعت کو اپنا میئر کراچی لانے کے لیے 184 ووٹ درکار ہے۔ کراچی میں کوئی بھی جماعت تنہا اپنا میئر کامیاب کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

انتخابات کی رپورٹنگ پر مہارت رکھنے والے کراچی کے صحافی اور تجزیہ نگار عبدالجبار ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ میئر کی کامیابی کا واضح امکان ہے۔

عبدالجبار ناصر کے مطابق: ’پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد میئر کو نواز لیگ اور جے یو آئی ایف کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح پی پی پی کے اپنے 155 ووٹ، نواز لیگ کے 14 اور جے یو آئی ایف کے چار ووٹ کے کُل 173 ووٹ موجود ہیں۔

’پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے کراچی میں میئر کے لیے اپنی جماعت کے ارکان سے جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔

’مگر کیا پی ٹی آئی کے تمام 62 ارکان جماعت السلامی کو ووٹ دیں گے؟ اگر ان میں 10 سے 11 ارکان بھی پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ کرتے ہیں تو میئر پی پی پی کا کامیاب ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست