کشمیر کی کھمبیاں جو فی کلو ’30 ہزار انڈین روپے‘ تک ملتی ہیں

تجربہ کار جمع کرنے والوں کے لیے مورچیلا نامی ان کھمبیوں کی شناخت مشکل نہیں ہے، تاہم نئے جمع کرنے والوں کے لیے یہ مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ مورچیلا سے مشابہت رکھنے والی مختلف انواع بھی جنگل میں پائی جاتی ہیں جو انتہائی زہریلی ہو سکتی ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے 45 کلومیٹر شمال میں علی محمد اپنی ٹوکری اور کچھ عجیب و غریب سامان باندھ کر صبح سویرے اپنے گھر سے نکل جاتے ہیں۔

سرسبز و شاداب درختوں سے گھری ایک دلکش سڑک سے گزرتے ہوئے 70 سالہ علی محمد بڈگام کے گھنے جنگل میں پہنچ کر پرجوش انداز سے ہر طرف نظریں دوڑاتے ہیں۔

وہ زمین سے چھوٹی چھوٹی کھمبیاں (مشروم) تلاش کر کے اپنی ٹوکری میں رکھ کر آگے دوسری کھمبیوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔

یہی کھمبیاں وہ خزانہ ہیں، جن کی تلاش میں علی محمد یہاں آئے تھے۔

نہایت نایاب اور قیمتی یہ کھمبی ’مورچیلا‘ یا ’موریل‘ کہلاتی ہے، جسے مقامی طور پر ’کنہ کیچ‘ (کان کی شکل والی) یا ’گچھی‘ کہا جاتا ہے۔

یہ کھمبی یہاں جنگلات اور چراگاہوں میں پائی جاتی ہے اور اسے کاشت نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود اگتی ہے۔

کشمیری محققین کے مطابق یہ مورچیلا کھمبیاں کپواڑہ، بانڈی پورہ، بارہ مولہ، گاندربل، کولگام، اننت ناگ، سری نگر اور شوپیاں کے جنگلات میں بکثرت پائی جاتی ہیں، لیکن وادی کے دیگر حصوں میں بھی کہیں نہ کہیں انہیں لوگ ڈھونڈ لیتے ہیں۔

علی محمد پچھلی دو دہائیوں سے یہ کھمبیاں جمع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گچھی کا اگنا کشمیر میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ مارچ، اپریل اور جولائی، اگست وہ اوقات ہوتے ہیں جب ان کا ذخیرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’کشمیری پہاڑیوں میں گچھی جمع کرنا ایک اجتماعی سرگرمی ہے۔ مرد جنگل میں آگے بڑھتے ہیں اور خواتین اور بچے جنگل کے کناروں کے قریب جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تجربہ کار جمع کرنے والوں کے لیے مورچیلا کی شناخت مشکل نہیں ہے۔ نئے جمع کرنے والوں کے لیے یہ مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ مورچیلا سے مشابہت رکھنے والی مختلف انواع بھی جنگل میں پائی جاتی ہیں جو انتہائی زہریلی ہو سکتی ہیں۔‘

جموں یونیورسٹی میں شعبہ نباتات کے ماہرین سنجیو کمار اور یش شرما کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں اس کھمبی کو صبح سویرے جمع کیا جاتا ہے۔

بڈگام کے ایک اور کھمبی جمع کرنے والے عبدالجبار شیخ نے بتایا کہ وہ صبح پانچ بجے گھر سے نکلتے ہیں اوراس کی تلاش میں کم از کم 30 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔

جنگل میں کٹائی کے بعد یہ کھمبیاں گھر لائی جاتی ہیں۔ تازہ کھمبیوں میں نمی کی سطح 80 فیصد ہوتی ہے جو تیزی سے خراب ہونے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے انہیں دھاگے میں پرو کر سکھانے کے لیے دیوار پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔

عبدالجبار شیخ کے مطابق: ’ایک بار جب کھمبیاں خشک ہو جاتی ہیں تو فروخت کے لیے انہیں پولیتھین یا کاغذ کے تھیلوں میں حفاظت سے پیک کر دیا جاتا ہے۔ ان کی قیمت 30 ہزار انڈین روپے فی کلو گرام تک پہنچ سکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا