کیا وجہ ہے کہ ٹائی ٹینک ’ڈوبنے‘ کا نام نہیں لے رہا؟

دنیا میں بڑے بڑے حادثات ہوئے ہیں جن میں ٹائی ٹینک سے زیادہ لوگ مارے گئے، مگر یہ حادثہ وقت گزرنے کے ساتھ تازہ ہوتا جا رہا ہے۔

دس اپریل 1912 کو جب دن 12 بجے ٹائی ٹینک نے برطانوی بندرگاہ ساؤتھیمپٹن سے اپنا سفر شروع کیا تو اخباروں نے 882 فٹ لمبے اور 104 فٹ چوڑے اس جہاز کو ’ناقابلِ غرقابی‘ (unsinkable) کا خطاب دیا۔

اس سلسلے میں انٹرنیشنل مرکنٹائل میرین کمپنی کے نائب صدر آلبرائیٹ فرینکلن کا بیان خاصا مشہور بلکہ بدنام ہوا۔ جب 15 اپریل کو کینیڈا کے ساحل سے چھ سو کلومیٹر دور کھلے بحرِ اوقیاس میں ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ٹائی ٹینک کا وائرلیس رابطہ منقطع ہو گیا اور لوگوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر سے معلومات لینے کی خاطر رابطہ کیا تو فرینکلن صاحب نے رات ساڑھے دس بجے کے قریب کہا:

’ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ یہ جہاز ناقابلِ غرقابی ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ٹائی ٹینک کسی بھی قسم کا نقصان برداشت کر سکتا ہے۔‘

لیکن بعد میں جب پتہ چلا کہ ٹائی ٹینک سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا ہے اور اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو فرینکلن کے بیان کا خوب مذاق اڑایا گیا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

لیکن کیا فرینکلن کی بات اتنی ہی غلط تھی؟

ٹائی ٹینک سمندر میں ضرور ڈوبا، لیکن عوام کے ذہنوں سے اس کے نشان مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہر سال اس موضوع پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، فلمیں بنتی ہیں، ویڈیو گیمز تیار کی جاتی ہیں اور اخباروں میں نت نئے آرٹیکل چھاپے جاتے ہیں، یو ٹیوب، ٹک ٹاک اور دوسرے میڈیا پر قسما قسم ویڈیوز نشر ہوتی ہیں۔

دنیا میں ٹائی ٹینک سے بڑے بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ صرف 20ویں صدی ہی میں کم از کم چار  بحری جہازوں کے حادثے ایسے ہیں جن میں ٹائی ٹینک سے زیادہ لوگ مارے گئے، لیکن کسی کو ان جہازوں کے نام تک یاد نہیں۔

اس کے مقابلے پر دنیا کے کسی بھی علاقے اور خطے میں چلے جائیے، لوگ آپ کو ٹائی ٹینک کے حادثے کی ایک ایک تفصیل بتا دیں گے۔

اگر آپ کہیں کہ اس کی وجہ جیمز کیمرون کی بلاک بسٹر فلم ہے، تو یہ بات درست نہیں ہے۔ 1997 میں کیٹ ونسلٹ اور لیونارڈو ڈی کیپریو کی المیہ فلم سے پہلے بھی ٹائی ٹینک پر 11 فلمیں بن چکی تھیں، جن میں سے ایک فلم تو غرقابی کے صرف 29 دن بعد ہی تیار ہو گئی تھی، جب کہ سال ختم ہونے سے پہلے پہلے دو اور فلمیں منظرِ عام پر آ گئیں۔

1997 کے بعد بھی اب تک اس موضوع پر مزید چھ فلمیں بن چکی ہیں اور یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں یہ سلسلہ نہ چلتا رہے۔ درجنوں کے حساب سے بننے والی دستاویزی فلمیں اور ٹیلی ویژن پروگرام اس کے علاوہ ہیں۔

ابھی 2020 میں چین نے ’دا سِکس‘ کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی جس میں ان چھ چینی باشندوں کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ٹائی ٹینک پر سوار تھے اور اس کے ساتھ ہی سمندر کی تہہ میں چلے گئے۔ اس فلم کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔

اس کے علاوہ ٹائی ٹینک کے حادثے پر ٹائی ٹینک پر لاتعداد کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں فکشن اور نان فکشن دونوں طرح کی کتابیں شامل ہیں۔ اس ضمن میں معروف مورخ سٹیون بیل کا ایک بیان خاصا مشہور ہوا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ’افواہ ہے کہ تین موضوعات جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے وہ ہیں: عیسیٰ علیہ السلام، امریکی خانہ جنگی اور ٹائی ٹینک۔‘

ٹائی ٹینک پر سب سے پہلی کتاب لارنس بیسلی کی ہے جو انہوں نے حادثے کے صرف تین ہفتے بعد لکھی تھی۔ المناک اتفاق یہ ہوا کہ وہ کتاب شائع ہونے سے قبل ہی انتقال کر گئے۔

اس کے بعد جو کتابوں کا تانتا بندھا ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ شاید سب سے مشہور کتاب ’اے نائیٹ ٹو ریمیبر‘ یعنی ’ایک رات جو یاد رہے گی‘ ہے۔ 1955 میں چھپنے والی اس کتاب کے 60 ہزار نسخے اشاعت کے صرف دو مہینے میں فروخت ہو گئے اور یہ چھ ماہ تک بیسٹ سیلر کی فہرست میں رہی۔ بعد میں اسی کتاب کی تلخیص ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ میں چھپی جس کے بعد یہ لاکھوں مزید لوگوں تک پہنچ گئی۔

مشہور انگریز ناول نگار اور شاعر ٹامس ہارڈی نے اس سانحے پر ایک عمدہ نظم لکھی تھی، جب کہ کئی اور شاعروں پر اسی موضوع پر طبع آزمائی کی، جب کہ گیت نگاروں اور موسیقاروں نے متعدد نغمے تخلیق کیے، جو آج بھی سنے جاتے ہیں۔

1985 میں جب ٹائی ٹینک کا ملبہ دریافت ہوا تو کتابوں اور فلموں کا ایک طوفان سا آ گیا۔ اس طوفان میں کئی درجے کی شدت 1997 میں ’ٹائی ٹینک‘ فلم کی کامیابی کے بعد پیدا ہوئی۔

ناول نگار کیوں پیچھے رہتے، انہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور بیسیوں ناول لکھ ڈالے، جن میں ڈینیئل سٹیل کا ناول بھی شامل ہے۔ حتیٰ کہ سائنس فکشن نگاروں نے بھی اس موضوع پر قلم آزمایا، چنانچہ مشہور و معروف سائنس فکشن ادیب آرتھر سی کلارک نے بھی اس پر ایک ناول لکھ رکھا ہے۔

اس واقعے کی چھوٹی سی چھوٹی جزئیات لوگوں کو ازبر ہیں۔ وکی پیڈیا کی طرز پر ایک آن لائن انسائیکلوپیڈیا بھی قائم کیا گیا ہے جس کا نام ہے ’انسائیکلوپیڈیا ٹائٹینیکا،‘ اور اس میں صرف اس حادثے سے متعلق تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔

امریکہ میں کم از کم دو عجائب گھر ٹائی ٹینک کی یادگاروں پر مشتمل ہیں جہاں ہزاروں لوگ جا کر اس جہاز سے متعلق اشیا کی نمائش دیکھتے ہیں۔

تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا وجہ ٹائی ٹینک کا حادثہ لوگوں کے ذہنوں میں آج تک زندہ ہے اور یہ غرق ہونے والا جہاز یاد سے غرق ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا؟

اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ٹائی ٹینک پر اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد سوار تھی۔ وائٹ سٹار کمپنی نے اس جہاز کی روانگی سے قبل جو اشتہار چلائے تھے ان میں اسے دنیا کا سب سے پرتعیش جہاز قرار دیا تھا۔ اس کی فرسٹ کلاس کا کرایہ 870 پاؤنڈ تھا، جب کہ اس وقت برطانوی سپاہی کی تنخواہ محض 20 پاؤنڈ سالانہ تھی۔

آپ نے 1997 کی ٹائی ٹینک فلم میں فرسٹ کلاس کے امرا کے عیش و عشرت کی چند جھلکیاں دیکھی ہوں گی، اور شاید انہیں جیمز کیمرون کے تخیل کی پیدوار سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ فلم نے اصل سے کمی ہی کی ہے، بیشی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ ہفتے ٹائی ٹینک کا نظارہ کرنے کے لیے جانے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ کی گمشدگی کی خبر دنیا بھر کے میڈیا کا موضوع بننے کے پیچھے بھی شاید یہی کہانی ہے۔ آسٹریلیا کی ریسرچ فیلو کرسٹی پیٹریشیا فلینری نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ٹائٹینک کی طرح ٹائیٹن بھی اپنے انتہائی امیر مسافروں کی وجہ سے اتنی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جنہوں نے ڈھائی لاکھ ڈالر اس سفر کے لیے ادا کیے تھے۔

اس کے علاوہ اس واقعے میں ٹائی ٹینک سے وابستگی بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹائیٹن پر عام لوگ سوار ہوتے، اور ان کا ٹائی ٹینک سے تعلق نہ ہوتا تو کیا پھر بھی دنیا کے بڑے میڈیا ادارے اس پر لائیو پیج چلا رہے ہوتے؟

پھر یہ بھی ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ترسیل کے جدید ذرائع وجود میں آ رہے تھے (ٹائی ٹینک پر دو فلمیں اسی سال بن گئی تھیں)۔ تار کے ذریعے یہ خبر دنیا بھر کے اخباروں کو بھیجی گئی اور اسے نمایاں سرخیوں میں چھاپا گیا۔ اس واقعے میں بچ جانے والوں کی کہانیاں، بہادری، جرات اور ایثار کی داستانیں لوگوں کے دلوں کو چھو گئیں۔ وہ بینڈ جو جہاز غرق ہونے کے وقت ساز بجاتا رہا، کیپٹن جس نے جہاز سے انخلا سے انکار کر دیا، وہ لوگ جو اپنے پیاروں کو کشتیوں میں سوار کرا کر خود جہاز پر ہی رہ گئے، جہاز ڈوبتے وقت اس پر باقی رہ جانے والے سینکڑوں لوگوں کی چیخ پکار جس کی روداد بچ جانے والے لوگوں نے بعد میں میڈیا کے سامنے بیان کی۔

ایک اور وجہ یہ تھی کہ جہاز برفانی تودے سے ٹکرانے کے فوراً بعد نہیں ڈوبا بلکہ اسے سطحِ سمندر سے نیچے جانے میں دو گھنٹے اور 40 منٹ لگے۔ یہ اتنا ہی وقت ہے جتنی بالی وڈ کی فلم ہوتی ہے۔ اس سلو موشن غرقابی کی وجہ سے کئی داستانیں وجود میں آئیں جو بچ جانے والوں میں بعد میں بیان کیں۔ اگر جہاز فوراً تباہ ہوتا تو شاید اتنے ڈرامائی مناظر نہ پیدا ہوتے۔

ٹائی ٹینک میوزیم کے نائب صدر پال برنز کہتے ہیں، ’ٹائی ٹینک اور نائن الیون ایسے حادثے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ صرف ان کی دہشت ناکی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ہمیں اصل لوگوں کے ڈرامائی حالات اور وقار کے سبق سکھاتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں اپنی زندگیوں کے حتمی فیصلے کرنا تھے۔‘

پھر یہ بھی ہے کہ ٹائی ٹینک حادثے کے بارے میں کئی سوال ایسے ہیں جو ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ جہاز برفانی تودے سے کیوں ٹکرایا؟ ریڈیو آپریٹر نے بروقت واقعے کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ وغیرہ۔ لوگوں کو ہمیشہ سے ایسے واقعات اپنی طرف کھینچتے ہیں جن سے کوئی پراسراریت یا معمہ منسلک ہو۔

ٹائی ٹینک کے حادثے کو قدرت کی جانب سے انسانی غرور پر طمانچہ قرار دیا گیا۔ جہاز ران کمپنی اور اس زمانے کے میڈیا نے جس طرح اس کی ٹیکنالوجی کی تشہیر کی، ناقدین اسی بات کو لے اڑے اور اس حادثے کو مذہبی رہنماؤں نے خاص طور پر اس بات کی دلیل کے طور پیش کیا کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے، وہ قدرت کے سامنے ہمیشہ بےبس رہے گا۔

ٹامس ہارڈی کی نظم ’ٹائی ٹینک‘ کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس میں بھی ہارڈی نے انسان کے غرور پر طنز کیا ہے۔ نظم میں دکھایا گیا ہے کہ مچھلیاں، کیکڑے اور دوسرے سمندری جانور سمندر کی تہہ میں پڑے جہاز کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ ایک بند پیش ہے:

بجھے چاند جیسی آنکھوں والی مچھلیاں
قریب آ آ کر سنہری ساز و سامان دیکھتی ہیں
اور پوچھتی ہیں
’یہ تکبر یہاں کیا کر رہا ہے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ