لاپتہ آبدوز میں 24 گھنٹے سے بھی کم آکسیجن بچی ہے: امریکی کوسٹ گارڈ

لاپتہ ٹائی ٹن سیاحتی آبدوز میں اب تقریباً ایک دن کی آکسیجن باقی ہے اور ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اس میں سوار سیاحوں کی زندگی کی امیدیں معدوم ہو رہی ہیں۔

کینیڈا کے فوجی نگرانی والے طیارے نے بدھ کی صبح شمالی بحر اوقیانوس کے ایک دور دراز حصے میں سیاحتی آبدوز کی تلاش کے دوران پانی کے اندر شور کا پتہ لگایا ہے۔

ٹائی ٹن نامی سیایتی آبدوز پانچ افراد کو غرقاب ہو جانے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے تک لے جانے کے دوران غائب ہو گئی تھی۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈ کے ایک بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ شور کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے لیکن یہ پیش رفت ٹائی ٹن کی تلاش کے دوران امید کی کرن ہے کیوں کہ اندازوں کے مطابق آبدوز میں ایک دن سے بھی کم کی آکسیجن بچنے کے باوجود یہ اب بھی کام کر رہی ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ ٹائی ٹن نامی آبدوز میں موجود پانچوں افراد کے پاس اندازاً 24 گھنٹے سے بھی کم آکسیجن باقی رہ گیا ہے۔

امدادی کارکنوں کا اندازہ ہے کہ آبدوز کے مسافروں کے پاس اب ایک دن سے بھی کم وقت کے لیے آکسیجن باقی ہے کیوں کہ آبدوز میں 96 گھنٹے تک ہی کی ہنگامی آکسیجن سٹور کرنے کی گنجائش تھی۔

امریکی محقق اور یونیورسٹی آف سین ڈیاگو کے سمندری ماہر جولس چیف کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اگلے 36 گھنٹوں کے اندر انہیں تباہ شدہ ملبے میں ان کا ملنا عملی طور پر ناممکن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ اب تک ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ آبدوز کہاں ہے اور دوسرا اگر ہم اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کیا ہم سیاحوں کو بچا سکیں گے؟‘

اس حوالے سے سوالات اب بھی باقی ہیں کہ ٹیمیں گمشدہ آبدوز تک کیسے پہنچ سکتی ہیں جو تاریخی بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 12 ہزار فٹ گہرائی میں موجود ہو سکتی ہے۔

آبدوز کے پائیلٹ سٹاکٹن رش ہیں، جو اس مہم کی قیادت کرنے والی کمپنی اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز کے سربراہ بھی ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ نے ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ کینیڈا کے ایک اورین پی تھری طیارے کو ’تلاش کے علاقے میں پانی کے اندر شور کا پتہ چلا ہے۔ اس کے بعد ریسکیو ٹیم نے ایک روبوٹ کو تلاش کرنے کے لیے سمندر کے اس حصے میں منتقل کیا ہے تاہم ان تلاش کی کارروائیوں کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن مشن اب بھی جاری ہے۔‘

کوسٹ گارڈ نے مزید کہا: ’پی تھری طیارے کے ڈیٹا کو امریکی بحریہ کے ماہرین کے ساتھ مزید تجزیے کے لیے شیئر کیا گیا ہے جس پر مستقبل قریب میں سرچ آپریشن کے لیے غور کیا جائے گا۔‘

کوسٹ گارڈ کا بیان رولنگ سٹون کے بعد آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹیموں نے ’ہر 30 منٹ میں سمندری علاقے میں ٹکرانے کی آوازیں‘ سنی ہیں۔

پانی کے اندر ہونے والے حادثات کے دوران آبدوز کا عملہ جو سطح پر ٹیمز کے ساتھ رابطے سے سے قاصر ہو وہ کسی بھی آلے کی مدد سے اپنی آبدوز کے ہول پر ٹکرانے سے آوازیں پیدا کرنے پر انحصار کرتا ہے تاکہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا جا سکے۔

امدادی کارکنوں نے منگل کو امید ظاہر کی تھی کہ گہرے سمندر میں خصوصی بحری جہازوں اور امریکی بحریہ کے ماہرین کی آمد سے ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتہ ہونے والی سیاحوں کی آبدوز کو تلاش کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی، کیوں کہ جہاز میں موجود پانچ افراد کے لیے آکسیجن تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی ٹی وی سی این این کے حوالے سے بتایا تھا کہ اندرونی سرکاری میمو کے مطابق ٹائیٹن کی تلاش کے دوران اس کی آوازوں کے سگنل ملے ہیں۔ تاہم اس معاملے میں مزید تفصیل ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

21 فٹ لمبی آبدوز کے ساتھ اتوار کو تمام رابطے منقطع ہوگئے تھے۔ یہ آبدوز غرقاب ہو جانے والے جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کو لے کر گئی تھی جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر) نیچے ڈوبا ہوا ہے۔

ٹائٹن نامی آبدوز میں تین سیاح سوار تھے جن میں برطانوی ارب پتی اور پاکستانی بزنس ٹائیکون اور ان کے صاحبزادے بھی سوار تھے۔

اس سیاحتی مہم میں شرکت کا فی کس کرایہ ڈھائی لاکھ ڈالر تھا جس کا اہتمام اوشن گیٹ ایکسپڈیشنز نامی ادارے نے کیا تھا۔

امریکی اور کینیڈین کوسٹ گارڈ کے بحری اور ہوائی جہاز سمندر کے سات ہزار 600 مربع میل کے سمندری علاقے کو اس آبدوزکے لیے کھنگال رہے ہیں جسے سطح سمندر سے 400 میل نیچے جانا تھا۔

امریکی بحریہ کے ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سمندر کی تہہ سے بھاری سامان اٹھانے کی خصوصی کرین بھی منگوا لی گئی ہے۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ وہ تیسرا سی130 طیارہ اور تین سی17 طیارے تلاش کے کام کے لیے وقف کر رہا ہے جبکہ فرانس اوشینوگرافک انسٹیٹیوٹ نے اعلان کیا ہے کہ اس کے گہرے پانی میں غوطہ لگانے والے روبوٹ اور ماہرین بدھ کو تلاش کے لیے پہنچ رہے ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے کپتان جیمی فریڈرک نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت کٹھن تلاش ہے اور ایک ٹیم مستقل تمام مہیا اثاثوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں جتنا جلد ممکن ہو تلاش کر رہی ہے۔‘

امدادی کارکنوں کے اندازے کے مطابق آبدوز میں سوار سیاحوں کے لیے دو دن سے کم کی آکسیجن باقی بچی ہے۔ یہ اندازہ آبدوز کی آکسیجن ذخیرہ کرنے کی سکت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جو کہ 96 گھنٹے تھی۔

فریڈرک کے منگل کو دوپہر ایک بجے دیے جانے والے بیان کے مطابق: ’اب تقریباً 40 گھنٹے سانس لینے کی ہوا بچی ہے۔‘

امریکی ٹیلی ویژن رائٹر مائیک ریس نے گذشتہ برس اسی آبدوز پر ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کیا تھا۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تجربہ پریشان کن تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس گہرائی میں دباؤ 400 گنا زیادہ ہے اس دباؤ سے جو سطح سے ناپا جاتا ہے۔

ریس کا کہنا ہے کہ ’کمپاس نے فوری طور پر کام کرنا چھوڑ دیا، وہ صرف گھوم رہا تھا اور اس لیے ہمیں سمندر کی تہہ میں آنکھیں بند کر کے چکر لگانا پڑا، یہ سمجھ کر کہ ٹائی ٹینک وہیں کہیں موجود ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ہر کوئی خطرات سے آگاہ ہے۔ ’آپ آگے بڑھنے سے پہلے ایک حلف نامے پر دستخط کرتے ہیں اور اس میں صفحہ اول پر تین مختلف بار موت کا ذکر ہے۔‘

ادھر برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آبدوز کو باہر سے بولٹس کی مدد سے بند کیا گیا ہے اور اگر وہ سطح پر آبھی جائے تو اس میں سوار افراد بغیر بیرونی مدد کے باہر نہیں نکل سکتے۔

ٹائی ٹینک کے ماہر ٹم میٹلن کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں اگر وہ سمند کی تہہ میں ہے تو اتنی گہرائی میں چند ہی آبدوزیں جا سکتی ہیں اور میرے خیال میں آبدوز کے ذریعے آبدوز کو بچانے کا یہ کام تقریبا ناممکن ہے۔‘

روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن ’واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں‘۔

ارب پتی مسافر

اوشن گیٹ نامی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق ادارہ ہر موسم گرما میں ٹائی ٹینک کے لیے پانچ ہفتے طویل ’مشن‘ کا شیڈول بناتا ہے۔

ڈیوڈ پوگ، ایک CBS رپورٹر، پچھلے سال ٹائٹن پر سوار ہوئے۔ دسمبر کی ایک خبر میں، انہوں نے بلند آواز سے اس حلف نامے کو پڑھا جس پر انہیں دستخط کرنے تھے، جس میں بتایا گیا کہ آبدوز ’کسی نگراں ادارے کی طرف سے منظور یا تصدیق شدہ نہیں تھی‘ اور اس کے نتیجے میں موت واقع ہو سکتی ہے۔

منگل کو ایک انٹرویو میں، پوگ نے ​​کہا کہ اوشن گیٹ نے تقریباً دو درجن بار کامیابی کے ساتھ ملبے تک پہنچنے کی مہم جوئی کی ہے اور کمپنی ہر غوطہ خوری سے پہلے ایک پیچیدہ حفاظتی جانچ کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ اس چیز کو خلائی سفر کی طرح سمجھتے ہیں۔‘

ہارڈنگ، متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک کاروباری مہم جو شخصیت ہیں اور ایکشن ایوی ایشن کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے ہفتے کو فیس بک پر ایک پیغام پوسٹ کیا، جس میں کہا گیا: ’یہ مشن ممکنہ طور پر 2023 میں ٹائی ٹینک کا پہلا اور واحد انسانوں والا مشن ہوگا۔‘

لاپتہ آبدوز میں سوار سیاحوں میں شہزادہ داؤد اور ان کے صاحبزادے سلیمان داؤد بھی شامل ہیں۔ شہزادہ داؤد اینگرو کے وائس چیئرمین ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔

ٹائی ٹینک کا ڈوبنا، جس نے 1,500 سے زائد افراد کو ہلاک کیا، کتابوں اور فلموں میں امر کیا گیا ہے، بشمول 1997 کی بلاک بسٹر فلم ’ٹائی ٹینک‘جس نے ملبے میں لوگوں کی دلچسپی کو تازہ کر دیا۔

کیا ہوا ہو گا؟

سائنٹیفک امیریکن نامی ویب سائٹ کے مطابق بہترین صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ ٹائٹن نامی آبدوز کی پاور ختم ہو گئی ہو اور اس کے اندر حفاظتی نظام ہوگا جو اسے سطح پر واپس آنے میں مدد کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر، یہ اضافی وزنوں سے لیس ہو سکتا ہے جسے فوری طور پر سطح پر واپس لانے کے لیے گرایا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ آبدوز کی پاور ختم ہو گئی ہو اور وہ سمندر کی تہہ میں چلی گئی ہو۔ یہ زیادہ مشکل نتیجہ ہوگا۔

بدترین صورت حال یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اپنے دباؤ میں تباہ کن اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اگرچہ ٹائٹن کا کمپوزٹ ہل گہرے سمندر کے شدید دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اس کی شکل یا تعمیر میں کوئی خرابی اس کی سالمیت پر سمجھوتہ کر سکتی ہے، ایسی صورت میں اس کے پھٹنے کا خطرہ ہے۔

ایک اور امکان یہ ہے کہ ابدوز میں آگ لگی ہو، جیسے کہ بجلی کے شارٹ سرکٹ سے۔ اس برقی نظام متاثر ہپو سکتا ہے جو آبدوز کے نیویگیشن اور کنٹرول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پانی کے اندر بند ماحول میں آگ لگنے کا ایک تباہ کن واقعہ ہے، اور ممکنہ طور پر عملے اور مسافروں کو ناکارہ بنا سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا