امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی شمالی کوریا مخالف آبدوز مشق

تربیتی مشقوں کا مقصد شمالی کوریا کے آبدوز سے چلائے جانے والے بیلسٹک میزائلوں اور حفاظتی خطرات کا جواب دینے کے لیے تینوں ممالک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی طرف سے فراہم کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں 30 ستمبر 2022 کو جنگی جہاز دکھائے گئے ہیں جن میں امریکی اور جاپانی بحری جہاز بھی شامل ہیں (اے ایف پی)

جنوبی کوریا کی فوج نے منگل کو بتایا کہ چھ ماہ میں پہلی بار امریکہ اور جاپان کی بحریہ کے اشتراک کے ساتھ آبدوز شکن مشقوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، جن کا مقصد شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے میزائل خطرات کے خلاف رابطے کو مضبوط بنانا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دو روزہ مشقیں ایسے وقت کی جا رہی ہیں جب شمالی کوریا کی جانب سے حال ہی میں میدان جنگ میں استعمال ہونے والے جوہری اسلحے کی ایک قسم کی نقاب کشائی نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ وہ 2017 کے بعد پہلا جوہری تجربہ کر سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ جنوبی کوریا کے جنوبی جزیرے جیجو کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ہونے والی بحری مشقوں میں جوہری طاقت سے چلنے والا امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس نمٹز، جنوبی کوریا، امریکہ اور جاپان کے  بحری جنگی جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ تربیتی مشقوں کا اہتمام شمالی کوریا کی جانب سے آبدوز سے چلائے جانے والے بیلسٹک میزائلوں اور دوسرے اسلحے  سے پیدا ہونے والے زیرِ آب حفاظتی خطرات کا جواب دینے کے لیے تین ممالک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

بیان کے مطابق تربیتی مشقوں کے دوران تینوں ملک جنوبی کوریا اور امریکہ کی عملے کے بغیر چلنے والی آبدوزوں اور دوسرے اثاثوں کو دشمن کا سمجھتے ہوئے ان کا پتہ لگایا جائے گا۔

جنوبی کوریائی افواج کے سربراہ ریئر ایڈمرل کم انہو نے کہا کہ ’ہم شمالی کوریا کی طرف سے کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کا فیصلہ کن جواب دیں گے اور اسے بے اثر کریں گے۔‘

دوسری جانب شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے حال ہی میں جنوبی کوریا-امریکی مشقوں کو ’لاپرواہ فوجی اشتعال انگیزی‘ قرار دیا جو شمالی کوریا کے ’صبر اور انتباہ‘ کو نظرانداز کر رہی ہیں۔۔

شمالی کوریا کی طرف سے آبدوز سے داغے جانے والے میزائل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے سنگین سکیورٹی خطرات ہیں کیوں کہ اس طرح سے چلائے جانے والوں میزائلوں کا پیشگی سراغ لگانا مشکل ہے۔

حالیہ برسوں میں شمال کوریا نے پانی کے اندر سے فائر کیے جانے والے جدید ترین بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کر رہا ہے اور جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوز سمیت بڑی آبدوزیں بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ماہ شمالی کوریا نے قبل ازیں ہونے والی جنوبی کوریا-امریکہ مشقوں کے جواب میں یکے بعد دیگرے میزائل تجربات کیے۔ جن ہتھیاروں کا تجربہ کیا گیا ان میں ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والا زیر آب ڈرون اور آبدوز سے داغا جانے والا کروز میزائل شامل ہیں۔

ان تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے زیر آب ہتھیاروں کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں گذشتہ ہفتے کی گئی تصاویر میں کیپسول کی شکل کے تقریباً 10 میزائل دکھائے جن کے سر سرخ رنگ کے تھے۔ ان ہتھیاروں کو ’ہواسن (آتش فشاں) -31 ‘ کہا جاتا ہے۔ ان میزائلوں پر مختلف سیریل نمبر درج تھے۔

 قریبی دیوار پر لگے پوسٹر میں آٹھ قسم کے مختصر فاصلے کے ہتھیاروں کے بارے میں تحریر درج تھی جو ہواسن 31  وار ہیڈ لے جا سکتے ہیں۔

ان ہتھیاروں کی گذشتہ آزمائشی پروازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنوبی کوریا میں امریکی فوجی اڈوں سمیت اہم اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

بعض مبصرین کی رائے میں وارہیڈ کی نقاب کشائی جوہری تجربے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے کیوں 2016 اور 2017 میں شمالی کوریا کے آخری دو ٹیسٹ دیگر وار ہیڈز کے انکشافات کے بعد کیے گئے تھے۔

اگر شمالی کوریا نے ایٹمی تجربہ کیا تو یہ اس کا مجموعی طور پر ساتواں اور ستمبر 2017 کے بعد پہلا ایٹمی دھماکہ ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا