فرانس میں فسادات کی پانچویں رات، مزید سینکڑوں گرفتار

وزیر انصاف ایرک ڈیوپوند موریتی نے کہا ہے کہ گرفتار شدگان میں سے 30 فیصد افراد کم عمر ہیں جبکہ وزیر داخلہ بتا چکے ہیں کہ گرفتار افراد کی اوسط عمر 17 سال ہے۔

فرانسیسی وزارت داخلہ کا کہنا ہے گذشتہ پانچ راتوں سے جاری فسادات کے دوران ہفتے کی رات سے اتوار کی صبح تین بجے تک مزید 486 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ روز بھی حکام نے 1300 سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

حکام نے فسادات کا نشانہ بننے والے شہروں میں تعینات پولیس کی نفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اتوار کو وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’سکیورٹی فورسز کے ٹھوس اقدام کی بدولت ایک نسبتاً پرسکون رات۔‘

اس سے قبل وزیرداخلہ نے صحافیوں کو بتایا تھا ہفتے کی رات کے لیے 45 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں جن کی تعداد گذشتہ رات تعینات کیے گئے اہلکاروں کے برابر ہے۔

دوسری جانب وزیر انصاف ایرک ڈیوپوند موریتی نے کہا ہے کہ گرفتار شدگان میں سے 30 فیصد افراد کم عمر ہیں جبکہ وزیر داخلہ بتا چکے ہیں کہ گرفتار افراد کی اوسط عمر 17 سال ہے۔

ہفتے کی رات لیون اور مارسیل سمیت کئی شہروں میں سکیورٹی فورسرز کی اضافی کمک بھی بھیجی گئی جو اس سے قبل تشدد کی بدترین لہر کا نشانہ بن چکے ہیں۔

صرف پیرس اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سات ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے جہاں سے اتوار کی صبح تین بجے تک 194 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

جبکہ لیون اور مارسیل سے صبح 1:30 تک 77 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ فرانس کے کچھ علاقوں میں گذشتہ رات کرفیو بھی نافذ کیا گیا تھا۔

فرانس میں الجزائری نژاد نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد ہونے والے فسادات پانچ روز سے جاری ہیں، جس کے دوران نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے گاڑیوں کو نذر آتش کیا، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور پولیس پر پتھر پھینکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مظاہرے 27 جون کو اس وقت شروع ہوئے، جب پیرس کے مضافاتی اور کم آمدنی والے افراد پر مشتمل قصبے نانٹیرے میں 17 سالہ ’ناہیل ایم‘ ٹریفک اشارہ توڑنے کی پاداش میں گولی مار کے قتل کر دیے گئے تھے۔

جس کے بعد مظاہرین نے مقتول کی والدہ کی قیادت میں ’ناہیل کے لیے انصاف‘ جیسے نعرے لگائے اور بعد ازاں ایک مقامی بینک کو آگ لگا دی گئی۔

روئٹرز کے مطابق منگل کو ہونے والا یہ حادثہ فرانس میں 2023 کا تیسرا ٹریفک سگنل فائرنگ کا واقعہ تھا۔ گذشتہ سال ایسے 13 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

نوجوان کی موت کیسے ہوئی؟

ناہیل ایم نامی نوجوان کو منگل (27 جون) کی صبح ٹریفک اشارے پر رکنے میں ناکامی پر گولی مار دی گئی تھی۔

ناہیل مرسیڈیز اے ایم جی پر سوار تھے اور جب انہوں نے اشارے کے باوجود گاڑی آگے بڑھائی تو ایک پولیس اہلکار نے قریب سے ڈرائیور سائیڈ پر فائرنگ کی، جس کے بعد بائیں بازو اور سینے میں لگنے والی ایک گولی سے ان کی موت ہو گئی۔

پولیس افسر کے وکیل کے مطابق: ’انہوں نے ڈرائیور کی ٹانگ کا نشانہ لیا تھا لیکن وہ ٹکرا گئے، جس کی وجہ سے گولی سینے کی طرف لگی۔‘ وکیل کا موقف ہے کہ ’ان کے مؤکل کی حراست مظاہرے پرسکون رکھنے کی کوشش کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔‘

فرانسیس صدر میکرون نے بدھ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فائرنگ ناقابل معافی ہے۔‘ انہوں نے فائرنگ کے بعد پھیلنے والی بدامنی کی بھی مذمت کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ