فرانس میں ’متنازع پینشن اصلاحات‘ کا قانونی بل منظور

ایف پی کے مطابق سرکاری جریدے فرانس گزٹ آف ریکارڈ میں ہفتے کی صبح اس قانون کی اشاعت کا مطلب ہے کہ یہ قانون اب نافذ عمل ہونے جا رہا ہے۔

کئی مہینوں سے جاری مظاہروں کے باوجود فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 64 سال تک بڑھانے سمیت اپنے پینشن اصلاحات کے ’متنازع‘ منصوبے کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرکاری جریدے فرانس گزٹ آف ریکارڈ میں ہفتے کی صبح اس قانون کی اشاعت کا مطلب ہے کہ یہ قانون اب نافذ عمل ہونے جا رہا ہے۔

سرکاری جریدے کے مطابق ملک کی آئینی عدالت نے جمعے کو میکروں کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق فرانس کی آئینی کونسل نے صدر ایمانوئل میکروں کے ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سے بڑھا کر 64 کرنے کے ایک غیر مقبول منصوبے کو ہری جھنڈی دکھائی جس کے خلاف فرانسیسی عوام مہینوں سے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

اس فیصلے نے پینشن پلان کے ناقدین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ پیرس میں جمعے کی شام مزدور یونینز کے سینکڑوں کارکنان اور دیگر افراد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جن میں سے کچھ گروپس نے تاریخی باسٹیل پلازہ اور اس سے آگے کچرے کے ڈبوں اور سکوٹروں کو آگ لگا دی جس کے جواب میں پولیس نے ان پر آنسو گیس کے گولے فائر کیے۔

یونینز اور میکروں کے سیاسی مخالفین نے اس بل کو واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کارکنوں نے بل واپس نہ لینے کی صورت میں نئے احتجاج کی دھمکی دے ڈالی۔

صدر میکروں کے دفتر نے اس صورت حال پر کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں اس قانون کو نافذ کریں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کا نفاذ سال کے آخر تک ہو جائے۔

وزیر اعظم الزبتھ بورن نے کہا کہ جمعے کا عدالتی فیصلہ ’اصلاحات کے ادارہ جاتی اور جمہوری راستے کے خاتمے کی نشان دہی کرتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ملک گیر تعطل فرانس کی بدترین سماجی بدامنی میں بدل گیا ہے اور یہ کسی کی فتح نہیں ہے۔

کونسل نے پینشن بل میں کچھ اقدامات کو مسترد کر دیا لیکن ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنے کے منصوبے نے خاص طور پر مظاہرین کے غصے کو ہوا دی ہے۔

دوسری جانب حکومت نے دلیل دی ہے کہ آبادی کی عمر کے ساتھ پینشن کے نظام کو رواں دواں رکھنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہیں۔

مخالفین نے اس کے بجائے دولت مندوں یا آجروں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ تبدیلیوں سے سماجی تحفظ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

لیکن ایک الگ متعلقہ فیصلے میں کونسل نے بائیں بازو کے قانون سازوں کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ سرکاری عمر کو 62 سال قائم رکھنے پر ممکنہ ریفرنڈم کی اجازت دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کونسل اگلے مہینے اسی طرح کی دوسری درخواست پر فیصلہ کرے گی۔

سٹی ہال کے باہر احتجاج کرنے والے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے 62 سالہ کارل فائفر نے خبردار کیا کہ آئینی کونسل کے فیصلے سے یہ تناؤ ختم نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ کونسل کے اراکین  کا فیصلہ ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہے کیوں کہ اس کے خلاف ملک گیر ردعمل سامنے آئے گا۔

احتجاج  میں شامل 22 سالہ بارٹینڈر لینا کیو نے کہا کہ وہ مایوس ضرور ہیں لیکن اس فیصلے سے حیران نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت نے ہماری بات نہیں سنی۔ جن مزدوروں نے ہڑتال کی ہے یا جنوری سے قانون سازی کے خلاف احتجاج کیا ہے وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن اس سے کچھ نہیں بدلا۔‘

کشیدگی بڑھنے کے بعد اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل میکروں نے مزدور یونینوں کو آئندہ منگل ملاقات کی دعوت دی تھی۔

یونینز نے میکروں کی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرانسیسی صدر کی جانب سے ماضی میں کی گئی ایسی پیشکشوں سے بھی انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے یکم مئی کو مزدوروں کے حقوق کے عالمی دن پر بڑے پیمانے پر نئے مظاہروں کی دھمکی بھی دی ہے۔

یونینز جنوری سے لے کر اب تک درجن بھر مظاہرے کر چکی ہیں جن میں انتہائی بائیں بازو کے بنیاد پرستوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج بھی شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ