ایل او سی پر گولہ باری: ’بارات والے دن جنازے اٹھانا پڑ گئے‘

ضلع پونچھ میں شادی کی تقریب پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے دو افراد ہلاک ہوئے جبکہ تحصیل عباس پور میں زخمی ہونے والا بچہ بھی راولپنڈی کے ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

درہ شیر خان کے علاقے میں جس گھر کے قریب گولہ گرا وہاں شادی کی تقریب جاری تھی۔ مرنے والوں میں دولہے کے چاچا اور ایک پڑوسی شامل ہیں  (فوٹو: محمد صدیق خان)

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریب ایک کشمیری خاندان کے لیے جشن کا دن اُس وقت ماتم میں تبدیل ہوگیا جب ان کے گھر کے دو بزرگ بھارتی گولہ باری میں ہلاک ہوگئے۔

ضلع پونچھ  کے علاقے درہ شیر خان کے 40 سالہ محمد صدیق کے مطابق اتوار کی شام چھ بجے کے قریب وہ گھر میں جاری شادی کی تقریب میں موجود 30 سے 40 مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ڈوڈیال سے آئے ان کے چچا، حسن دین باہر لنگر خانے کے قریب اپنے دوستوں کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہوئی اور ایک زور دار دھماکے سے مکان لرز اٹھا۔

محمد صدیق نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم سب باہر کی طرف دوڑے کسی نے چیخ کر کہا حسن دین چچا اور لال محمد کو شیل لگے ہیں۔ اتنے میں بھگدڑ مچ گئی۔ قریب کے مہمان اپنے گھروں کو بھاگ رہے تھے جبکہ دور سے مہمان خوفزدہ ہو گئے۔ ہم حسن دین چاچا اور لال محمد کو اٹھا کر گھر کے اندر لائے۔ دونوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔ لال محمد تو تھوڑی دیر میں فوت ہو گئے مگر حسن چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے۔‘

محمد صدیق شادی کی اس تقریب میں موجود تھے جسے گذشتہ روز کنٹرول لائن پار سے بھارتی فوج نے نشانہ بنایا۔ یہ ان کے تایازاد بھائی 30 سالہ عقیل احمد کی شادی کی تقریب تھی اور ہلاک ہونے والوں میں سے ایک ان کے حقیقی چچا اور دوسرے ان کے پڑوسی ہیں۔

 اتوار کی شام ضلع پونچھ کے علاقوں درہ شیر خان، بٹل اور عباس پور میں بھارتی فوج کی گولہ باری میں سات سالہ بچے سمیت کم از کم تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر ہجیرہ سید ممتاز کاظمی کے مطابق دو افراد 65 سالہ لال محمد اور 75 سالہ حسن دین درہ شیر خان میں ہلاک ہوئے جبکہ ایک بچہ عباس پور میں زخمی ہوا تھا جو بعد میں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں اور بٹل سیکٹر میں فائرنگ کے اکا دکا واقعات کی اطلاعات ملی ہیں تاہم آج دن میں کسی نقصان کی اطلاع نہیں۔‘

’زخمیوں کو ہسپتال نہیں لے جا سکے‘

گولہ باری سے متاثرہ خاندان کے محمد صدیق نے بتایا: ’حسن دین چاچا 1999 میں گولہ باری کی وجہ سے ہی یہ علاقہ چھوڑ گئے تھے اور اپنے خاندان کے ساتھ ڈوڈیال شہر میں رہتے تھے۔ اس علاقے میں ان کا کبھی کبھار ہی آنا ہوتا تھا۔ کبھی کسی خوشی غمی کے موقع پر آتے تھے۔ عقیل کی شادی میں بھی ان کے بچے دو دن پہلے آ گئے تھے مگر وہ خود گولہ باری شروع ہونے سے آدھ گھنٹہ پہلے یہاں پہنچے۔‘

ان کا کہنا تھا گولہ باری اس قدر شدید تھی کہ تین گھنٹے تک کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد صدیق کے بقول: ’گاوں میں سڑک ہے نہ ہسپتال۔ تین گھنٹے تک کوئی ہماری مدد کو نہیں آ سکا۔ قریب ترین ہسپتال تتہ پانی میں ہے اور وہاں پہنچنے میں بھی کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ خوف و ہراس کی وجہ سے کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ حسن دین چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے اور پھر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی جان نکل گئی۔ گولہ باری میں اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ ہم انہیں ہسپتال لے جا سکتے۔‘

مقامی لوگوں کے مطابق رات نو بجے جب گولہ باری میں وقفہ آیا تو دونوں افراد کی لاشیں وہاں سے نکالی گئیں۔ حسن دین کی لاش کو ڈوڈیال روانہ کیا گیا جبکہ لال محمد کی تدفین اگلے روز قریبی گاؤں میں ہوئی۔

’تدفین کے لیے دوسرے گاؤں جانا پڑا‘

شادی کی تقریب پر فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے دوسرے شخص لال محمد کے بھانجے گل نواز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا وہ لائن آف کنٹرول کے بالکل سامنے ہے۔ وہاں پہنچنے کا راستہ کافی دشوار ہے اور یہ راستہ بھارتی فوج کی چوکیوں کے بالکل سامنے سے گزرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’رات کی تاریکی میں دونوں لاشیں وہاں سے نکالیں اور روڈ تک پہنچنے میں ہمیں کم از کم تین گھنٹے لگے۔‘

گل نواز خان کے بقول: ’حکام نے جنازے پر زیادہ لوگوں کو اکھٹا نہیں ہونے دیا۔ تدفین کے لیے بھی لاش کو آبائی گاؤں کے بجائے لگ بھگ تین کلو میٹر دور دوسرے گاؤں لے جانا پڑا۔‘

اسسٹنٹ کمشنر سید ممتاز کاظمی نے، جو خود بھی لال محمد کی نماز جنازہ میں شریک تھے، تصدیق کی کہ فائرنگ کے خدشے پیش نظر زیادہ تعداد میں لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے منع کیا گیا۔ کاظمی نے بتایا بقول حفظ ما تقدم کے طور پر لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں سکولوں کو بھی عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔

’ہسپتال ہیں نہ سڑکیں‘

ضلع پونچھ میں لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں بسنے والے مکینوں کا شکوہ ہے کہ اس علاقے میں سڑکوں کی حالت ٹھیک ہے اور نہ ہی ہسپتال موجود ہیں۔ گل نواز خان کہتے ہیں: ’درہ شیر خان اور اس کے قریبی علاقوں میں کوئی ہسپتال نہیں۔ مریضوں اور زخمیوں کو دوسرے ضلع میں تتہ پانی یا کوٹلی کے ہسپتالوں میں لے کر جانا پڑتا ہے۔‘

عباس پور سے مقامی صحافی افضل کیانی کہتے ہیں اس علاقے میں بھی زخمیوں اور مریضوں کے علاج کی مناسب سہولتیں موجود نہیں۔ گذشتہ روز فائرنگ سے زخمی ہونے والے سات سالہ بچے صدام کو بھی ابتدائی طبی امداد کے بعد سی ایم ایچ راولپنڈی بھیج دیا گیا تھا تاہم وہ بھی نہیں بچ سکا اور ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔

’حالات ٹھیک ہوں گے تو شادی بھی ہو جائے گی‘

گولہ باری کے بعد شادی کی تقریب کا کیا بنا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد صدیق نے بتایا: ’جس دن بارات اٹھنا تھی، اس دن جنازے اٹھانے پڑ گئے۔ آپ خود سوچیں گھر میں جنازہ ہو جائے تو پھر بارات کی کیا اہمیت؟ ابھی تو دولہا بھی چاچا کی میت لے کر ڈوڈیال گیا ہوا ہے، حالات ٹھیک ہوں گے تو شادی بھی ہو جائے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان