پشاور کا سکیورٹی نظام جو اندھیرے میں بھی چہرے پہچان سکتا ہے

پشاور پولیس کے مطابق اگر کوئی شخص حلیہ بھی تبدیل کر لے تو یہ جدید اے آئی سسٹم اس کو نہ صرف پہچان لے گا، بلکہ یہ بھی بتا دے گا کہ یہ شخص پہلے کتنی مرتبہ اور کس حلیے میں ریڈ زون میں داخل ہوا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے ’ریڈ زون‘ میں پولیس نے صوبے کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا جدید سسٹم نصب کیا ہے جس سے اب ریڈ زون میں دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں کسی بھی وقت پراسرار حرکت یا کوشش کا سیکنڈوں میں پتہ چلایا جا سکے گا۔

یہ جدید سسٹم آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) سسٹم کہلاتا ہے، جو خودکار نظام کے ذریعے گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کی لمحوں کے اندر شناخت یقینی بناتا ہے۔

سینٹرل پولیس آفس کے مطابق، اب اگر کوئی شخص حلیہ بھی تبدیل کر لے تو اے آئی سسٹم اس کو نہ صرف پہچان لے گا، بلکہ یہ بھی بتا دے گا کہ یہ شخص یا گاڑی پہلے کتنی مرتبہ اور کس حلیے میں ریڈ زون میں داخل ہوا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ حالیہ خصوصی انٹرویو میں انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات نے بتایا کہ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا جدید سکیورٹی سسٹم ہے، جو اسلام آباد کے ’سیف سٹی نظام‘ میں بھی نصب نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی اس خودکار نظام کی ضرورت اس وقت مزید محسوس ہوئی جب 30 جنوری کو خودکش بمبار نے پشاور کے پولیس لائنز میں گھس کر مسجد میں دھماکہ کیا، اور نتیجتاً 100 سے زائد پولیس اہلکاروں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

پولیس لائنز دھماکے کے بعد چیکنگ کے میکانزم کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ چونکہ فزیکل سرچ پر مبنی ایک نظام تھا اس لیے یہ مشینی خودکار نظام کی طرح مستعد نہیں ہو سکتا تھا۔‘

آئی جی پولیس نے بتایا کہ چونکہ پشاور کے ریڈ زون میں کئی حساس دفاتر ہیں، لہٰذا اس علاقے کے لیے ایک فُول پروف نظام کی عرصہ دراز سے اشد ضرورت تھی۔

’سیف سٹی کے تصور میں زیادہ تر تصاویر کے ذریعے معلومات اکٹھی کرنے کا تصور ہے جو مفید تو ہے لیکن اگر اس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو شامل کیا جائے تو سسٹم آپ کو وہ چیزیں فراہم کرتا ہے جو آپ کو درکار ہوتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی جی اختر حیات نے بتایا کہ ریڈ زون کے 40 داخلی راستوں پر چہرے کی شناخت والے کیمرے نصب کیے گئے ہیں، جبکہ 100 سے زائد کیمرے اس کے علاوہ دیگر ہیں۔

’اس نظام میں نائٹ وژن کیمرے و مواصلاتی آلات نصب ہیں جس کے ذریعے چہروں کی شناخت، گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی خود کار شناخت، کیمرے گاڑیوں کے نیچے چیکنگ اور Intrusion Dectection کے کیمرے نصب ہیں۔‘

پولیس کے سربراہ آئی جی اختر حیات نے کہا کہ اے آئی سسٹم نصب کرنے کے بعد پولیس کو پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ روزانہ سات سے آٹھ ہزار لوگ پشاور کے ریڈ زون میں داخل ہوتے ہیں۔

’یہ ہمیں پہلے معلوم نہیں تھا۔ یہ اے آئی سسٹم نے ہمیں بتایا۔ اے آئی سسٹم سے ان تمام لوگوں کے چہروں کی شناخت ہو جاتی ہے۔ سسٹم میں آپ اپنی گاڑی کا نمبر دیں تو وہ بتا دے گا کہ پہلے یہ گاڑی کبھی ادھر سے گزری ہے یا نہیں۔‘

آئی جی پولیس نے بتایا کہ اب پولیس کسی بھی گاڑی ماڈل، رنگ یا نمبر سیکنڈوں میں جان سکے گی۔ ’اگر کسی مرد یا خاتون نے بھیس یا حلیہ بدل لیا ہو تو بھی اے آئی سسٹم اسے پہچان لے گا۔‘

انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس جدید نظام کو بنانے اور نصب کرنے میں پاکستان اور خیبر پختونخوا کے قابل لوگوں سے استفادہ لیا گیا۔

کیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا نظام نصب کرنے سے داعش اور طالبان کا مقابلہ آسان ہو جائے گا؟

اس سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی تمام پاکستان کی طرح خیبر پختونخوا پولیس کے لیے بھی چیلنج ہے۔ جن دو کالعدم تنظیموں کا آپ نے نام لیا ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن سے ہم نمٹ رہے ہیں۔ اور ان واقعات میں کمی بھی آ گئی ہے، یہ ایک جہد مسلسل ہے۔ کوشش یہی ہے کہ عوام کو محفوظ ماحول فراہم کریں۔‘

ریڈ زون میں کون سی عمارات شامل ہیں؟

ریڈ زون کی حدود میں سنٹرل جیل گیٹ پشاور سے لے کر پولیس لائنز مین گیٹ، سول سیکرٹریٹ، گورنر ہاﺅس، سپیکر ہاﺅس، چیف منسٹر ہاﺅس اور سیکرٹریٹ اور دیگر اہم عمارات شامل ہیں۔ تاہم اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ریڈ زون کو ڈیفنس کالونی کے ساتھ ملحقہ ’امن چوک‘ تک پھیلانے پر غور کیا جا رہا ہے، کیونکہ کئی اہم عمارات جو موجودہ ریڈ زون سے اب بھی باہر ہیں، کو شامل کیا جا سکے گا۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ سکیورٹی نظام کام کیسے کرتا ہے؟

متعلقہ دفتر میں ماہرین کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہ خودکار نظام نہ صرف باہر کے لوگوں بلکہ دفتر کے اندر کام کرنے والوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔

سینٹرل پولیس دفتر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹر نوید گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چھ ماہ بعد متعلقہ جدید نظام کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ کسی کمی یا خامی کی موجودگی کی نشاندہی کرکے اس کو دور کیا جا سکے۔

’اس سسٹم کی خاصیت یہ ہے کہ جو بھی شخص چاہے پیدل یا گاڑی سے گزر رہا ہے اس کا ڈیٹا سسٹم میں جمع ہو رہا ہے۔ نہ صرف تصاویر بلکہ ان کا ویڈیو ریکارڈ بھی۔‘

آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اس دفتر میں موجود ایک ماہر زاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب زیادہ حساس دفاتر کے باہر ایک باؤنڈری وال ایسی بنا دی گئی ہے جس سے کوئی بھی شے ٹکرائے تو دفتر میں ’اے آئی‘ الارم بجنا شروع ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ شے ’جانور، پرندہ یا انسان ہو سکتا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ اے آئی سسٹم کو کس چیز سے الرٹ کرواتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان