لاہور: سیف سٹی کیمروں سے ایک گاڑی کے سینکڑوں ای چالان کیسے؟

لاہور پولیس نے گذشتہ ماہ ایک ایسی گاڑی بھی حراست میں لی، جس کے 160 سے زائد چالان ہوچکے تھے اور 78ہزار روپے جرمانہ واجب الادا تھا۔

لاہور میں  ٹریفک پولیس اہلکار  30 مئی 2015 کو  اس ہوٹل کی طرف جانے والی ایک گلی کے کونے پر تعینات ہیں ،  جہاں زمبابوے اور پاکستانی کرکٹ ٹیمیں ٹھہری ہوئی تھیں (اے ایف پی )

سیف سٹی منصوبے کے تحت حکومت پنجاب نے لاہور میں ای چالان کا آغاز کیا تو عام شہریوں کو شکایت ہے کہ ایک گاڑی کے سینکڑوں چالان ہونا معمول بن چکا ہے۔ آئے روز ٹریفک پولیس کی جانب سے ایسی گاڑیوں کو تحویل میں لینے کی مہم چلائی جاتی ہے، جن کے مالکان درجنوں چالان ہونے کے باوجود جرمانے ادا نہیں کرتے۔

لاہور پولیس نے گذشتہ ماہ ایک ایسی گاڑی بھی حراست میں لی، جس کے 160 سے زائد چالان ہوچکے تھے اور 78ہزار روپے جرمانہ واجب الادا تھا۔

ترجمان ٹریفک پولیس کے مطابق اب تک ایک گاڑی کے سب سے زیادہ، 203 بار، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ریکارڈ ہوئے ہیں۔

سیف سٹی اتھارٹی نے لاہور کے بیشتر چوراہوں پر لگے ٹریفک اشاروں کے ساتھ کیمرے نصب کر رکھے ہیں، جن کی مدد سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں جدید سینسرز کی نشاندہی سے چالان ہو جاتا ہے اور چالان ٹریفک پولیس کی ویب سائٹ یا گاڑی کے مالک کی رہائش گاہ تک پہنچ جاتا ہے۔

تاہم شہر میں کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جہاں سیف سٹی اتھارٹی جدید کیمروں کی تنصیب نہیں کرسکی۔

دوسری جانب سیف سٹی اتھارٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس نظام میں جہاں جہاں خامیوں کی نشاندہی ہوتی ہے انہیں دور کیا جاتا ہے اور ایسی صورت حال میں چالان بھی منسوخ کر دیا جاتا ہے۔

بلاوجہ جرمانوں کی شکایات

سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے ان جدید ٹریفک سگنل اور کیمروں کے ذریعے ٹریفک قوانین پر عمل درآمد اور بے ہنگم ٹریفک کو روکنے میں تو کافی حد تک مدد ملی ہے تاہم بیشتر شہریوں کو یہ شکایات ہیں کہ اس نظام کے تحت زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور مجبوری میں جرمانہ ہوجاتا ہے۔

محمد عدیل ایک کمپنی کے سپلائی آفیسر ہیں اور پک اپ گاڑی میں لاہور کے مختلف علاقوں میں سامان کی ترسیل کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’چوراہوں پر ڈیوائیڈر، فٹ پاتھ کے ڈیزائن، تنگ سڑکوں اور آہستہ چلنے والی سواریوں کے باعث مجبوری میں سگنل سرخ ہوتے وقت گاڑی یا موٹر سائیکل رینج میں آتی ہے اور چالان ہوجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ گاڑی اگر زیبرا کراسنگ پر کھڑی ہوجائے تو بھی چالان کر دیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق کئی سڑکوں پر سفید اور زرد لائنیں یا زیبرا کراسنگ کی سفید لائنیں مٹ چکی ہیں جو رات کو نظر نہیں آتیں لیکن ورچوئل سیٹنگ میں کیمرا خلاف ورزی ظاہر کر دیتا ہے اور چالان ہو جاتا ہے۔

اسرار خان ایک بینک میں ملازم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی گاڑی کا جب بھی چالان ہوا تو انہوں نے خلاف ورزی چیک کی کہ اشارے سے دائیں مڑنا ہو تو دائیں جانب لین میں گاڑی رکھنی ہے اور بائیں جانب مڑنے پر بائیں لین میں اشارہ بند ہونے پر گاڑی کھڑی کرنی ہے کیونکہ اس کے برعکس گاڑی روکنے پر چالان ہوا۔

’اسی طرح سگنل سرخ ہونے پر سڑک کراس کی تو چالان ہوگیا۔ ایک چالان نمبر پلیٹ ٹیڑھی ہونے پر ہوا تو جب بھی چالان رسید ملی اس پر تصویر کے ساتھ ثبوت دیکھا تو اس خلاف ورزی پر قابو پایا اور اب کافی حد تک چالان سے بچت ہوجاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بے صبری اور افراتفری میں گاڑی، رکشہ یا موٹر سائیکل چلانے والے بھی کافی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ ’سب کو جلدی میں نکلنے کی عادت ہوتی ہے جس سے قانون کی پاسداری مشکل ہوجاتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی اشاروں کی ٹائمنگ ہی دس سیکنڈ رکھی گئی ہے، جس کے سبز ہونے پر بمشکل چند گاڑیاں ہی عبور کر پاتی ہیں کہ سگنل سرخ ہوجاتا ہے۔‘

جدید سگنل نظام میں خامیاں اور ان کا حل

سیف سٹی اتھارٹی لاہور کے سربراہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کامران خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ لاہور میں سیف سٹی کے پونے آٹھ ہزار کے قریب کیمرے نصب ہیں، جن میں سے پانچ ہزار کام کر رہے ہیں جبکہ دو ہزار پانچ سو کے قریب خراب ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ملتان روڑ پر 22 مقامات پر اشاروں کے ساتھ کیمرے نہیں ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کا نظام ٹیپا اور ایل ڈی اے کے پاس ہے۔ جلد ہمارے حوالے ہوگا تو وہاں بھی کیمرے نصب کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’کیمرے خراب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ 2019 میں ہواوے کمپنی سے ڈالر ریٹ پر دیکھ بھال کا منصوبہ جاری نہ رہ سکا اور وہ ریٹ بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ہم ایک نجی کمپنی سے کیمروں اور ای چالان کا نظام چلوا رہے ہیں، جو یہ نظام بنانے والی کمپنی ہواوے کے مقابلے میں سو فیصد نتائج نہیں دے پارہی۔ تو اب دوبارہ ان سے بات چیت فائنل ہو رہی ہے۔‘

کامران خان کے بقول شہر میں جن مقامات پر ای چالان کا جدید نظام رائج ہے وہاں یہ مسائل ضرور آرہے ہیں کہ بعض چوراہوں کی ڈیزائننگ کا مسئلہ ہے۔ کہیں تین لینز نہیں، کہیں ڈیوائیڈر اور فٹ پاتھ ایسے بنے ہیں کہ ٹریفک قوانین کو فالو کرنا شہریوں کے لیے ممکن نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’سڑکوں پر سفید اور زرد رنگ کی لائنیں مسلسل پینٹ نہیں ہوتیں تو کئی جگہ وہ دکھائی نہیں دیتیں، لیکن کیمرے ورچوئل نظام کے تحت خلاف ورزی پر نشاندہی کرتے ہیں اور چالان ہو جاتا ہے، لیکن یہ سب ایل ڈی اے اور مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں۔‘

تاہم ڈی آئی جی نے بتایا: ’ہم شہریوں کی شکایات کا جائزہ لے کر نظام میں ایسے مقامات میں چھوٹ دیتے ہیں جہاں واقعی انتظامی مسئلہ ہو اور چالان بھی منسوخ کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ لائنز کی خلاف ورزی ہو یا سگنل توڑنے کی، اس پر دیکھا جاتا ہے کہ کوئی مجبوری تو نہیں تھی۔ جیسے کہیں احتجاج ہو رہا ہو یا حادثے کے باعث ٹریفک جام ہوجائے تو ہم کنٹرول کی رپورٹ پر وہاں سگنل فری کرکے مینوئل کنٹرول کرتے ہیں۔

ای چالان کیسے ہوتا ہے؟

ڈی آئی جی کامران خان نے بتایا: ’سیف سٹی اتھارٹی کے تحت جہاں بھی سگنل سسٹم نصب کیا جاتا ہے، وہاں چوراہوں کے اطراف میں اشارے لگا کر سڑک کے اوپر کیمرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کیمروں کے ساتھ جدید سینسرز لگے ہوتے ہیں جو کنٹرول روم سے منسلک ہوتے ہیں۔ نظام میں ٹریفک کے جن قوانین کی خلاف ورزی پر ایکٹویشن فیڈ ہے ان پر سینسر کیمروں کی مدد سے تصویر کو واضح کر دیتے ہیں لیکن اگر نمبر پلیٹ واضح ہو تو ای چالان کے نظام میں نشاندہی ہوجاتی ہے۔‘

’اس نظام کو ایکسائز کے نظام سے منسلک کیا گیا ہے۔ یہاں سے نشاندہی کے بعد خلاف ورزی کرنے والی گاڑی یا موٹر سائیکل یا کوئی بھی سواری جس پر ایکسائز کی نمبر پلیٹ لگی ہو، اس کا ریکارڈ ایکسائز میں جاتا ہے اور مالک کا ریکارڈ سامنے آنے پر آن لائن بھی اپ ڈیٹ کردیا جاتا ہے اور گھروں پر بھی چالان رسید بھیجی جاتی ہے۔‘

بقول ڈی آئی جی: ’یہی وجہ ہے کہ اَن جانے میں بغیر کسی مداخلت کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں یا دیگر سواریوں کے چالان ہوتے رہتے ہیں اور مالکان چیک نہیں کرتے۔ جب وہ 100 سے تجاوز کرتے ہیں تو ٹریفک پولیس آن لائن ریکارڈ کے ذریعے گاڑیاں پکڑ کر جرمانوں کی وصولی کو یقینی بناتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان