صوبہ خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے سابق مرکزی رہنما پرویز خٹک کی جانب سے ’نئی پارٹی‘ تشکیل دینے کی افواہیں سرگرم ہیں، ایسے میں ان کے داماد اور بھتیجے عمران خٹک نے عندیہ دیا ہے کہ پرویز خٹک اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے 17 جولائی (بروز پیر) کو ’خاموشی‘ توڑ سکتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس جاری کرنے اور پھر ان کی رکنیت ختم کرنے کے بعد اگرچہ انہوں نے خود تو مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم سیاست کی دنیا میں ان کے حوالے سے متفرق خبریں گردش میں ہیں۔
کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں تاہم اس بارے میں ابھی کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔
رواں برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد کئی رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف الوداع کہتے ہوئے اپنے راستے جماعت سے الگ کر لیے تھے، لیکن سابق وزیراعلیٰ ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہیں نہ صرف پی ٹی آئی کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا بلکہ ان کی پارٹی رکنیت بھی ختم کر دی گئی۔
ماضی میں قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ اگر عمران خان کو نظر بند کیا گیا تو شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک پارٹی کو چلائیں گے لیکن پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب یہ تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں کہ پرویز خٹک اور عمران خان مل کر کوئی ’سیاسی چال‘ چل رہے ہیں، تو پھر پرویز خٹک کی جانب سے یہ نئی سیاسی جماعت بنانے کا معاملہ کیا ہے؟
ان تمام باتوں کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پرویز خٹک کے ساتھ متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے بیٹے اور پی ٹی آئی سے منتخب ہونے والے تحصیل ناظم اسحاق خٹک سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے بھی اس حوالے سے خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔
جس کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے داماد اور بھتیجے ڈاکٹر عمران خٹک سے، جو دو مرتبہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، رابطہ کیا۔
عمران خٹک نے بتایا کہ ’پرویز خٹک ممکنہ طور پر اپنی خاموشی پیر (17 جولائی) کی دوپہر توڑ کر اہم اعلان کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں، جس کے لیے ایک نجی مقام کا انتخاب کیا جا چکا ہے اور بہت ہی سلیکٹڈ لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی دو رائے باقی نہیں رہی کہ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا ہے اور اب سیاست جاری رکھنے کے لیےانہوں نے الیکٹیبلز سے رابطے کر لیے ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے کچھ سابق رہنما بھی شامل ہیں۔‘
عمران خٹک نے اگرچہ پارٹی کا نام بتانے سے گریز کیا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ایک الگ سیاسی پارٹی کے قیام کے لیے پرویز خٹک اہم شخصیات سے رابطے کر چکے ہیں اور جن میں خود عمران خٹک نے بھی ان کا ساتھ دینے کا اظہار کیا ہے۔
عمران خٹک کے مطابق: ’جب پارٹی سے ان کی رکنیت ختم کر دی گئی تو ظاہر ہے کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا۔ پرویز خٹک ایک سیاست دان ہیں اور وہ لازماً سیاست جاری رکھیں گے۔ وہ غیر ضروری طور پر وقت ضائع نہیں کر سکتے، ایسے حالات میں کہ حلقے کے عوام کی امیدیں آپ سے وابستہ ہوں۔‘
عمران خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ ’پاکستان میں حالیہ سیاسی صورت حال کے نتیجے میں انہوں نے اور ان کے سسر پرویز خٹک نے دلبرداشتہ ہو کر سیاست کو خیرباد کہنے کا ارادہ کیا تھا، تاہم حال ہی میں پی ٹی آئی کی جانب سے جو سلوک روا رکھا گیا اس نے انہیں دوبارہ سیاست میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری اپنے حلقے میں اتنی قدر و منزلت ہے کہ اگر ہم سیاست چھوڑنا بھی چاہیں تو حلقے کے لوگ ہمیں جانے نہیں دیتے۔ یہ بہت بڑا دباؤ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیاست میں دوبارہ کھینچ لانے کی وجہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا پرویز خٹک کے ساتھ نامناسب رویہ ہے۔‘
بقول عمران خٹک: ’پرویز خٹک کے لیول کے سیاست دان کو شوکاز نوٹس جاری کرنا بےعزتی کے مترادف تھا۔ اگر کوئی شکوہ یا سوال تھا تو خود براہ راست کر لیتے، اسی لیے پرویز خٹک نے جواب دینا بھی اپنی توہین سمجھا اور خاموش رہے۔‘
عمران خٹک نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کے ساتھ کچھ بھی مسئلہ پیش آتا تو پرویز خٹک کو آگے کیا جاتا تھا اور جب کچھ اچھا ہوتا تو پرویز خٹک کا نام بھی کسی کو یاد نہ رہتا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جو کچھ اسد عمر نے کیا، ان کو تو شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور پرویز خٹک جو ہمیشہ برے وقتوں کے ساتھی رہے، ان کی اتنی توہین کی گئی۔ ایسے میں پارٹی کا قیام ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ پرویز خٹک ہمارے بزرگ ہیں، وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہم ان کو فالو کریں گے۔‘
دوسری جانب اس طرح کی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ پرویز خٹک نے ’عمران خان کو انتخابات میں چیلنج‘ کرنے کا کہا ہے، تاہم صرف ایک دن قبل بظاہر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انہوں نے ان قیاس آرائیوں کے جواب میں کچھ یوں لکھا:
The news circulating in media regarding my statements is completely false. If there's something I need to say, I will communicate it myself. Please disregard any misleading information. Thank you.
— Pervez Khattak (@PervezKhattakPK) July 15, 2023
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ٹویٹ کے باوجود ان کے ٹوئٹر بائیو پر ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کا نام لکھا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پرویز خٹک دراصل عمران خان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر ایک ’سیاسی چال‘ چل رہے ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی کے کئی کارکنان کا کہنا ہے کہ کوئی سیاسی چال نہیں چلی جا رہی اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے راستے الگ ہوچکے ہیں۔
پشاور سے پی ٹی آئی کے پرانے کارکن عرفان سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں پرویز خٹک کے حوالے سے کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہی ہے اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ شوکاز نوٹس کیوں جاری کیا گیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرفان سلیم کے مطابق: ’پرویز خٹک نے پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے انہیں اختیار سونپ دیا ہے کہ ایک الگ پارٹی بنا کر تمام رہنماؤں کو جمع کیا جائے۔ جب عمران خان کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے شوکاز نوٹس جاری کیا۔‘
حالیہ سیاسی حالات اور اس تناظر میں جنم لینے والی صورت حال پر بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات تاحال ’خارج از امکان‘ ہیں۔
پشاور میں ایریا سٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر سرفراز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب تک عمران خان کو مکمل طور پر سیاست سے سائیڈ لائن نہیں کیا جاتا، الیکشن کے امکانات روشن نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کے بعد کسی ایک جماعت کا غلبہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک بڑے اتحاد پر مبنی حکومت ہو گی، جس کا ٹوٹنا آسان ہو گا۔‘
ان کے مطابق: ’ہو سکتا ہے پرویز خٹک قومی وطن پارٹی، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کریں اور اسی صورت میں ان کو 50 تک الیکٹیبلز مل جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’پرویز خٹک جانتے ہیں کہ جب بھی پیپلز پارٹی کو ساتھ ملایا جاتا ہے تو جیت یقینی ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی آج کل پیپلز پارٹی پر قسمت کی دیوی مہربان ہے۔‘
سرفراز خان نے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی الگ جماعتوں کے مستقبل کے حوالے سے بتایا کہ ’ماضی میں بھی جب بھی کوئی سیاسی جماعت زیر عتاب آتی تو ان کے خلاف کئی سیاسی پارٹیاں کھڑی کی جاتیں، لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں۔
’یہ راتوں رات بن جاتی ہیں اور ان کو ہر قسم کی مدد بھی مل جاتی ہے، تاہم یہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ عارضی ثابت ہوتی ہیں۔‘