سکیورٹی وجوہات پر عمران خان کو اڈیالہ جیل میں نہیں رکھا گیا: حکومتی وکیل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

اسلام آباد پولیس کے کمانڈوز پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو 12 مئی، 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ لے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

آج درخواست کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سابق وزیر اعظم کی سکیورٹی کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار کے وکلا سے استفسار کیا کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ عمران خان کو اڈیالہ کی بجائے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا؟

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت سے عمران خان کی اٹک جیل منتقلی سے متعلق جواب طلب کر رکھا تھا۔ 

درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک جیل میں حراست خلاف قانون قرار دینے کی استدعا کے علاوہ ان کے خاندان اور وکلا سے ملاقات کی اجازت اور ڈاکٹر فیصل سلطان سے طبی معائنہ کروانے کی درخواست کی گئی ہے۔

سماعت کے دوران پنجاب حکومت نے عدالت کے سامنے عمران خان کی اٹک جیل منتقلی کا خط پیش کیا۔

خط کے متن کے مطابق اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، اور زیادہ تر قیدی بم دھماکوں اور دہشت گردی جیسے سنگین مقدمات میں نامزد ہیں۔

خط کے مطابق پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے، موجودہ حالات کے پیش نظر چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ کے علاوہ کسی اور جیل میں منتقل کیا جائے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اڈیالہ جیل حساس نوعیت کی جیل ہے جہاں گنجائش سے زیادہ قیدی موجود ہیں، سکیورٹی کی بنا پر عمران خان کو اڈیالہ جیل منتقل نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے جواب دیا یہ تمام چیزیں آپ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو بھی فراہم کریں۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جیل میں وکلا کو ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سات اگست کو ایک وکیل نے جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اور سابق وزیر اعظم سے وکالت نامے پر دستخط کروائے۔

’جیل سے واپس آ کر وکیل نے کہا کہ وکلا کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

چیف جسٹس نے کہا: ’جیل میں وکلا سے ملاقات کا کیا طریقہ کار ہے؟ میں سمجھنا چاہ رہا ہوں، جب کہا جاتا ہے کہ ملنے نہیں دیا گیا تو اس سے غلط تاثر جاتا ہے۔ پھر توہین عدالت کی کارروائی ہوتی ہے وہ پھر اچھا نہیں لگتا۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا گذشتہ روز بھی یہ ملاقات کرنے کے لیے چار بج کر 45 منٹ پر گئے۔

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ اتوار کے علاوہ باقی تمام دنوں میں صبح آٹھ سے دو بجے تک ملاقات کی اجازت ہوتی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل گوہر خان نے کہا ان کے 180 کیس چل رہے ہیں جس کے لیے انہیں چیئرمین پی ٹی آئی سے ہدایات لینی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا، ’اتنے کیسز چل رہے ہیں وکلا نے ملاقات تو کرنی ہی ہوگی۔ اب وکلا جائیں اور ملاقات نہ ہو پرچہ ہو جائے تو یہ اچھا تو نہیں لگتا۔‘

چیئرمین پی ٹی آئی کو کیا سہولیات میسر ہیں؟

پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا عمران خان کے لیے انہوں نے کھانے کے لیے الگ سے باورچی رکھا ہوا ہے، الگ برتن رکھے ہوئے ہیں۔

’ایک میڈیکل افسر اور ایک ڈی ایس پی کھانا چیک کرتا ہے اس کے بعد ہی انہیں کھانا دیا جاتا ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے: ’میں کہوں گا ماضی قریب میں ایک اور ہائی پروفائل قیدی تھی کیا ان کو یہ سہولت نہیں تھی؟‘

انہوں نے کہا: ’میں مناسب آرڈر کروں گا۔ ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ جو قید میں ہیں ان کے حقوق ہیں ان کا انکار نہیں کر سکتے۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل پنجاب حکومت کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا یہ یاد رکھیے گا کہ چیئرمین پی ٹی آئی آپ کی حراست میں ہیں، ان کی مکمل ذمہ داری جیل سپرنٹنڈنٹ پر ہے۔

’جو حقوق چیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں وہ انہیں ملنے چاہیے‘

چیف جسٹس نے کہا اگر وکیل کسی اور کیس میں جانا چاہے تو طریقے سے ملاقات ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی وکیل شیر افضل مروت نے کہا یہ ہائی کورٹ ہے اگر یہاں کوئی غلط بیانی کرے گا تو اس کے اثرات ہوں گے۔

’میں ساڑھے چار بجے کل وہاں پہنچا آج یہ یہاں غلط بیانی کر رہے ہیں، پنجاب حکومت کا نمائندہ یہاں بیان حلفی دے کہ ہم کل ساڑھے چار پہنچے۔‘

چیف جسٹس نے کہا: ’وہ اسی لیے اتنی تفصیلات میں جا رہے ہیں تاکہ آئندہ ایسا کچھ نہ ہو۔ چیئرمین پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں، سابق وزیر اعظم ہیں اور ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں۔

’دونوں چیزوں کو آپ نے اکٹھے لے کر چلنا ہے جو حقوق چیئرمین پی ٹی آئی کے ہیں وہ انہیں ملنے چاہییں۔‘

وکیل شیر افضل مروت نے کہا: ’قوانین کے مطابق چئیرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی تمام جیلوں میں جگہ سے زیادہ قیدی ہیں۔ نواز شریف کے کیس میں ڈاکٹر عدنان روزانہ ان کے پاس جاتے تھے۔‘ 

چیف جسٹس نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی کے اپنے ذاتی معالج سے معائنے کی بھی استدعا کی گئی ہے، جس پر وکیل شیر افضل مروت نے کہا: ’ان کا اپنا ڈاکٹر چیک کر لے گا تو کیا ہو جائے گا؟ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ اتنا تنگ کیوں کر رہے ہیں؟‘ 

عدالت نے استفسار کیا اگر کوئی اپنے ذاتی معالج سے چیک اپ کروانا چاہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا: ’ملاقات اور سہولیات کا معاملہ ہے میں اس سے متعلق آرڈر کر دوں گا، اگر ایک دو لوگ بھی جا رہے ہیں تو پھر کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی۔‘

وکیل گوہر خان نے کہا اگر پولیس لائنز کو ہی سب جیل ڈکلئیر کر دیں تو وڈیو لنک کی سہولیات مل جائیں گی۔

چیف جسٹس نے کہا: ’چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات اور سہولیات سے متعلق میں آرڈر کروں گا، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اس طرح کی شرائط عائد نہ کریں۔‘

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان