چین کے چانگ ای فور مشن کی چاند گاڑی نے سائنس دانوں کو زمین سے نظر نہ آنے والی چاند کے رخ پر سطح کے نیچے ’پوشیدہ‘ ساخت دیکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو چاند کی اربوں سال کی تاریخ کے بارے میں انکشاف کرتی ہے۔
یوٹو-ٹو نامی چاند گاڑی نے اپنے لونر پینیٹریٹنگ ریڈار (ایل پی آر) کے ذریعے اس دریافت میں مدد کی جس نے چاند کی سطح کے نیچے موجود اور نظروں سے اوجھل ساخت سے ٹکرا کر واپس آنے والی آواز کی بازگشت کی مدد سے چاند کی سطح کے نیچے گہرائی کی منظر کشی کی۔
اسی چاند گاڑی اور مشن کے لینڈر نے 2019 میں چاند کے دور دراز حصے پر اترنے والی انسان کی تیار کردہ کسی پہلی شے کے طور پر تاریخ رقم کی تھی۔
سائنس دانوں نے اس سے قبل چاند گاڑی کے گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار (جی پی آر) کا استعمال کیا تھا لیکن اس سے قبل کی ان کوششوں سے چاند کی سطح کے صرف اوپر والے 40 میٹر یا تقریبا 130 فٹ گہرائی والے حصے کا نقشہ بنانے میں مدد مل سکی۔ اس نئی دریافت میں ’پوشیدہ‘ ساخت تقریباً تین سو میٹر (984 فٹ) کی گہرائی میں پائی گئی ہے۔
نئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چاند کی سطح کے نیچے پہلا 130 فٹ کا حصہ دھول، مٹی اور چٹانوں کی تہوں پر مشتمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریڈار کے تجزیے سے ایک مدفون گڑھے کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا جو اس وقت پیدا ہوا جب بڑی جسامت کی کوئی چیز چاند کی سطح سے ٹکرائی تھی۔ اس تجزیے سے چاند کے نیچے قدیم لاوے کے بہاؤ کا نقشہ بنانے میں بھی مدد ملی۔
محققین نے اپنی تحقیق میں وضاحت کی ہے کہ ’جی پی آر چاند کے اندرونی حصے میں برقی مقناطیسی لہریں بھیجتا ہے اور زیریں پرتوں کی بازگشت سنتا ہے۔ ہم چاند گاڑی کے راستے میں آنے والی بالائی 40 میٹر کی ساخت کا پتہ لگانے کے لیے ہائی فریکوئنسی چینل ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ساخت بنیادی طور پر چٹان کے ملبہ اور مٹی پر مشتمل ہے۔‘
سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس ساخت کے ارد گرد ٹوٹی پھوٹی چٹانیں ممکنہ طور پر تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ملبہ تھا۔
انہوں نے لکھا کہ ’اس تحقیق کے ذریعے ہم نے تین سو میٹر کی بالائی تہہ کی متعدد پرتیں دریافت کی ہیں جو ممکنہ طور پر اربوں سال پہلے بسالٹ کے ابھر کر اوپر آنے کے سلسلے کی نشاندہی کرتی ہیں۔‘
جریدے ’جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ: پلینٹس‘ میں حال ہی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چان
د کا لاوا ممکنہ طور پر اربوں سال قبل چاند کے اس حصے میں بہہ رہا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ آتش فشاں چٹانوں کی پرتیں چاند کی سطح کے جتنی قریب ہوتی ہیں اتنی ہی پتلی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’لاوے کے اس بہاؤ کی موٹائی میں تبدیلی وقت کے ساتھ لاوا پھوٹنے میں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔‘
اس ثبوت کی بنیاد پر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ساڑھے چار ارب سال قبل چاند کے وجود میں آنے کے بعد سے چاند پر آتش فشانی کی سرگرمی آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑتی گئی جب مریخ جتنی کوئی چیز زمین سے ٹکرائی جس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ ٹوٹ کر بالآخر چاند بن گیا۔
سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’گہرائی میں کمی کے ساتھ پرتوں کی موٹائی کم ہوتی جاتی ہے جس سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاوے کے اخراج میں بتدریج کمی آتی ہے۔‘