سپین کی خواتین فٹ بالرز نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک ٹیم کے لیے نہیں کھیلیں گی جب تک کہ ملکی فٹ بال فیڈریشن کے صدر لوئس روبیالس کو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد فٹ بالر جینی ہرموسو کے منہ پر بوسہ لینے کے سکینڈل پر برطرف نہیں کردیا جاتا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رائل سپینش فٹ بال فیڈریشن (آر ایف ای ایف) کے صدر لوئس روبیالس نے جمعے کو استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے فٹ بالر ہرموسو سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ان کا بوسہ لے سکتے ہیں، جس پر خاتون نے کہا: ’ٹھیک ہے۔‘
46 سالہ لوئس روبیالس نے مزید کہا تھا: ’میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ میں آخری دم تک لڑوں گا۔‘
جس کے بعد ہرموسو اور ورلڈ کپ جیتنے والے سکواڈ کی تمام 23 کھلاڑیوں سمیت کل 56 کھلاڑیوں نے سپین کی خواتین فٹ بال ایسوسی ایشن کے ذریعے بھیجے گئے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے، جس میں گورننگ باڈی کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی بیان میں جینی ہرموسو نے لوئس روبیالس کے اس دعوے کی تردید کی کہ سڈنی، آسٹریلیا میں خواتین فٹ بال ورلڈکپ کے فائنل میں سپین کی انگلینڈ کو ایک صفر سے شکست دینے کے بعد انعامی تقریب میں دے گئے بوسے میں ان کی رضامندی شامل تھی۔
انہوں نے لکھا: ’میں اسے برداشت نہیں کرسکتی جب میرے الفاظ کو غلط طریقے سے لیا جائے اور وہ الفاظ گھڑ لیے جائیں جو میں نے نہیں کہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیفا نے لوئس روبیالس کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ فیفا کے نظم و ضبط کے قوانین کے آرٹیکل 13، پیراگراف 1 اور 2 کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتا ہے۔
ہسپانوی خواتین کی لیگ لا لیگا ایف نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپین کی وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے بھی لوئس روبیالس کے اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
اس سے قبل سپین کے وزیر ثقافت اور کھیل میکل ایسیتا نے اس عمل کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا۔
سپین کی دوسری نائب وزیر اعظم یولیندا دیاز نے کہا تھا کہ روبیالس کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ ’ایک خاتون کو ہراساں کیا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔‘
اسی طرح مساوات کی وزیر آئرین مونتیرو نے اسے ’جنسی تشدد کی ایک شکل‘ قرار دیا تھا۔