فٹ بال ورلڈ کپ: مراکش کی بینزینا نے حجاب پہن کر تاریخ رقم کر دی

مراکش کی 25 سالہ ڈیفنڈر نوحیلہ بینزینا ایڈیلیڈ میں جنوبی کوریا کے خلاف کھیلے گئے فٹ بال میچ میں ہیڈ سکارف پہن کر کھیلنے والی پہلی کھلاڑی بن گئی ہیں۔

آسٹریلوی شہر ایڈیلیڈ کے ہندمارش اسٹیڈیم میں جنوبی کوریا اور مراکش کے درمیان ویمنز ورلڈ کپ گروپ ایچ فٹ بال میچ کے دوران مراکش کی نوحیلہ بینزینا (نمبر 3) جنوبی کوریا کی فارورڈ (سرخ وردی میں) جی سو یون سے نمٹ رہی ہیں (برینٹن ایڈورڈز/اے ایف پی)

مراکش کی فٹ بالر نوحیلہ بینزینا خواتین ورلڈ کپ کے دوران حجاب پہننے والی پہلی کھلاڑی بن گئیں، جب انہوں نے اتوار کو آسٹریلیا میں جاری خواتین کے عالمی فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران جنوبی کوریا کے خلاف میچ میں حجاب پہن کر کھیلا۔ یہ میچ مراکش نے 1-0 سے جیت لیا۔

آسٹریلوی شہر ایڈیلیڈ میں کھیلے جانے والے میچ میں نوحیلہ بینزینا نے پہلی عرب یا شمالی افریقی ملک کی کھلاڑی کے طور پر بھی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 24 جولائی کو نوحیلہ بینزینا جرمنی کے خلاف میچ میں مراکش کی ٹیم میں شامل ہونے کے باوجود کھیلنے سے قاصر رہی تھیں۔ مراکش نے وہ میچ 0۔6 سے ہارا تھا۔

فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے تقریباً ایک دہائی قبل کھلاڑیوں کی حفاظت سے متعلق سابقہ خدشات کے بعد خواتین فٹ بالرز کے حجاب پہننے پر پابندی اٹھا لی تھی۔

اس سے قبل راحیلہ بینزینا کو سراہتے ہوئے ’وائس آف امریکہ‘ کے ایک مضمون میں مسلم ویمن اِن سپورٹس نیٹ ورک کی شریک بانی اسما ہلال نے لکھا تھا: ’لڑکیاں بینزینا کو دیکھیں گی (اور سوچیں گی کہ) یہ میں ہو سکتی ہوں۔ نیز پالیسی ساز، فیصلہ ساز، منتظمین بھی کہیں گے، ہمیں اپنے ملک میں کھیل میں حصہ لینے کے لیے خواتین اور لڑکیوں کے لیے یہ عمل قابل قبول بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

بینزینا پروفیشنل کلب فٹ بال کھیلتی ہیں۔ ان کی ٹیم مراکش کی ٹاپ ویمنز لیگ میں آٹھ بار دفاعی چیمپیئن رہی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی مقبول ہیں اور انسٹاگرام پر ان کے 47 ہزار سے زائد فالورز ہیں۔

وہ 2017 میں پہلی مرتبہ انڈر ٹوئنٹی قومی ٹیم کے لیے کھیلی تھیں۔

بینزینا کو خواتین کے ورلڈ کپ کے آغاز سے اب تک صحافیوں سے بات چیت کے لیے پیش نہیں کیا گیا ہے، البتہ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں اپنی ورلڈ کپ میں شرکت کی تاریخ ساز نوعیت کے بارے میں دیگر لوگوں کی سوشل میڈیا پوسٹس شیئر کی ہیں۔

مراکش کی کپتان غزلین چیبک نے اس حوالے سے کہا تھا: ’ہمیں خواتین کے ورلڈ کپ میں حصہ لینے والا پہلا عرب ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں ایک اچھا امیج پیش کرنے کے لیے ایک بڑی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔‘

ایک انتخاب

اگر مراکش نے ایک دہائی قبل خواتین کے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا ہوتا تو ایک کھلاڑی کو جو کھیل کے دوران حجاب پہننا چاہتی ہو، اسے حجاب اور اپنے ملک کی نمائندگی کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔

2007 میں ایک ریفری نے 11 سالہ کینیڈین لڑکی کو کلب میچ کے دوران حجاب پہننے سے روک دیا تھا۔ جب یہ معاملہ فیفا تک پہنچا تو کھیل کی عالمی گورننگ باڈی نے اس کے منظور شدہ مقابلوں میں ماسوائے اس حجاب کے، جو گردن کو کھلا رکھتا ہو، سر ڈھانپنے پر پابندی لگا دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیفا نے ممکنہ دم گھٹنے جیسے ممکنہ ’صحت اور حفاظت‘ کے خدشات کا حوالہ دیا تھا۔ ضابطوں کے مطابق: ’ایسے سازوسامان پر پابندی ہے جو اپنے یا کسی دوسرے کھلاڑی کے لیے خطرناک ہو۔‘

’کریٹنگ چانسز‘ اور فٹ بال یونائیٹڈ کی آسٹریلیا میں مقیم آپریشن مینیجر ہلال نے کہا: ’اس فیصلے نے واقعی مسلم خواتین کو، خاص طور پر حجاب پہننے والوں کو ایک مضبوط پیغام بھیجا کہ ان کا ہم سے تعلق نہیں ہے۔‘

ہلال ان سماجی کارکنوں، مسلم کھلاڑیوں اور حکومت اور فٹ بال کے عہدیداروں میں شامل تھیں، جنہوں نے پابندی کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں۔

2012 میں فیفا نے ایشین فٹ بال کنفیڈریشن کو دو سال کی آزمائشی مدت دی، جس کے دوران کھلاڑیوں کو بین الاقوامی مقابلوں میں سر ڈھانپنے کی اجازت تھی۔ آزمائشی مدت کے دوران کوئی سینیئر سطح کے ورلڈ کپ، مردوں یا خواتین کے، شیڈول نہیں تھے۔

2014 میں فیفا نے سر ڈھانپنے پر پابندی اٹھا لی۔ دو سال بعد اردن میں انڈر 17 ویمنز ورلڈ کپ میں پہلی بار مسلمان کھلاڑیوں نے بین الاقوامی فیفا ایونٹ کے دوران سکارف پہنا۔

شناخت کا حصہ

میلبرن کی رہائشی میریان ہاگی ہاشی نے، جنہوں نے گذشتہ ہفتے مراکش کے عوامی پریکٹس سیشن میں شرکت کی تھی، کہا کہ وہ ٹورنامنٹ کے شریک میزبان آسٹریلیا کی حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مراکشی ٹیم اور بینزینا کی جانب سے کی گئی کوشش کو سراہتی ہیں۔

ہاگی ہاشی نے کہا کہ ’(مسلم) خواتین کی ایک تعداد ہے، جو حجاب پہنتی ہیں اور اکثر حجاب نہیں پہنتی۔ مجھے لگتا ہے کہ دنیا نے محسوس کیا ہے کہ اس میں تنوع ہے۔‘

ہلال نے کہا کہ جب سے پابندی ہٹائی گئی ہے، اس سے مسلم لڑکیوں اور خواتین میں فٹ بال کھیلنے، کوچنگ اختیار کرنے اور فٹ بال کلبوں کی قیادت کرنے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ہلال نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حجاب ایک مسلمان خاتون کا، اگر وہ اسے پہننا چاہے تو ضروری جز ہے۔ یہ دراصل ہماری شناخت کا حصہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹ بال