انقلاب پاکستان کے دانشور اور فلسفی

اس انقلاب پاکستان کو آئے ہوئے ایک سال گزر گیا ہے۔ بہت سے دانش مند فلسفی اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ چند ایک ابھی بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سے گذشتہ ہفتے ملاقات کے دوران کچھ حیرت انگیز انکشافات سننے کو ملے۔

(اے ایف پی)

چند سال پہلے جب عمرانی انقلاب کے بنانے والے دانش مند فلسفیوں نے اس کی بنیاد کی وضاحتیں دینی شروع کیں تو اہم حلقوں میں انہوں نے ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پانچ بڑے شواہد کی تشہیر کا بندوبست کیا۔ ان میں سے ایک ملکی قرضے اور دوسرا عام شہری کی زندگی میں بہتری کے معدوم ہوتے ہوئے امکانات تھے۔

سب کو یہ بتایا گیا کہ پاکستانی شہری ایک ایسے ملک سے کیوں کر اپنا رابطہ جوڑے رکھے گا جو کشکول کی کمائی کھاتا ہے جہاں نہ اس کے بچے کو صحت کی سہولیات میسر ہیں اور نہ وہ کوئی ایسی تعلیم حاصل کر پاتا ہے جس کی نوکریوں کی منڈی میں مانگ ہو۔ نہ شہریوں کو انصاف مل رہا ہے اور نہ ملک کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان فلسفیوں نے ہر سمت یہ بات پھیلائی کہ پاکستان ایسے نہیں چل سکتا۔ یہاں پر عمرانی انقلاب اب ناگزیر ہو چکا ہے۔

اس انقلاب پاکستان کو آئے ہوئے ایک سال گزر گیا ہے۔ بہت سے دانش مند فلسفی اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ چند ایک ابھی بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ایک سے گذشتہ ہفتے ملاقات کے دوران کچھ حیرت انگیز انکشافات سننے کو ملے۔ مجھے بتایا گیا کہ پنجاب کا وزیر اعلی اس ملک کی تاریخ کا سب سے نکما صوبائی حکومتی سربراہ ہے جس کو تبدیل اس وجہ سے نہیں کیا جا سکتا کہ کہیں خان صاحب سے تعلقات خراب نہ ہو جائیں اور وہ نازک سلسلے جن سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کا سیاسی ڈھانچہ بنا ہوا ہے کہیں ٹوٹ نہ جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجھے بتایا گیا کہ وزارت خارجہ سے لے کر وزرات اطلاعات و نشریات پر اور وزارت دفاع و وزارت داخلہ سے لے کر وزارت خزانہ تک ہر شعبے کو دھکا لگا کر چلانا پڑ رہا ہے۔ امیر انقلاب عمران خان خود کو ہر اہم کام کے کرنی کی مشقت سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔ لہذا ہر اہم ریاستی و حکومتی شعبے میں ایک عارضی فیصلہ سازی کا گورکھ دھندہ مستقل بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے۔ اس نظام میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ امیر انقلاب اپنے طور طریقوں اور بنی گالہ میں پنپنے والے خاص ماحول کو ہر قسم کی تبدیلی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ عجیب انقلاب ہے جس نے حالات کو سدھارنے کی بجائے مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ کہاں اداروں کی تشکیل نو ہونی تھی۔ نئی روایات پر مبنی کامیاب تنظیموں نے وجود میں آنا تھا اور کہاں یہ تلخ حقیقت کہ ریاستی اور حکومتی امور روزانہ کی بنیاد پر ’ڈنگ ٹپاؤ‘ طریقے سے چلائے جا رہے ہیں۔  

عمرانی انقلاب کے غیر متوقع نتائج کا اظہار اور شعبوں نے بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ مثلا تعلیم کے نظام کی خرابیاں جس کا واویلا مچا کر اس انقلاب کی بنیاد رکھی گئی تھی ایک سال بعد نئی پریشان کن کیفیت کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے پنجاب کے سیکرٹری ایجوکیشن کو بالآخر لاہور سے نکل کر تعلیمی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے صوبے کے کسی اور ضلعے میں جانا پڑا۔ یہ ضلع وزیر اعظم عمران خان کا اپنا حلقہ ہے جہاں سے انہوں نے سیاست کا آغاز کیا۔ جہاں کے رہنے والوں نے جھولیاں بھر بھر کر ان کو ووٹ دیے اور جس کے صدقے انہوں نے اپنا موجودہ عظیم مرتبہ حاصل کیا۔ میانوالی کے اس حلقے میں سکولوں کے تعلیمی نتائج ایسے ہیں کہ ناکام ترین نظام بھی خود کو کامیاب سمجھنے پر مجبور ہو جائے۔ ایک سکول میں نویں کے امتحان میں 65 میں سے 65 بچے فیل ہو گئے۔ ایک اور سکول میں 23 طلبہ میں سے 23 فیل ہو گئے ایک اور میں 83 میں سے صرف 3 پاس ہو سکے۔ اس کے برابر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا نتیجہ سکول انتظامیہ کے مطابق تسلی بخش رہا چونکہ 206 میں سے 32 پاس ہوئے اور اس کے بعد ایک اور بوائز ہائی سکول میں 100 میں سے 8 طالب علم پاس ہوئے اور اس طرح یہ سکول کامیابی کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا۔

سیکرٹری تعلیم قاعد انقلاب کے حلقے میں ان تہلکہ خیز نتائج کی جڑ تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کرتے رہے کہ شاید ان نتائج کا کوئی سرا کشمیر میں ہونے والے ظلم سے جوڑا جا سکے لیکن ان کو ہر ذریعے نے یہی بتایا کہ بدانتظامی اور عدم توجہی سرطان کی طرح میانوالی کے تعلیمی نظام کو کھا رہی ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پچھلے تین ماہ میں محکمہ تعلیم کے 12 چیف ایگزیکٹو تبدیل ہو چکے ہیں اور پی ٹی آئی کے اپنے اراکین اسمبلی پاکستان میں آنے والے انقلاب کا رخ عمران خان کے اپنے حلقے کی طرف موڑنے کی کوشش کر کے تھک چکے ہیں۔

یہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بڑے معاملات میں ایسے الجھے ہوئے ہوں کہ میانوالی کے تعلیمی نظام کے دلخراش داستاں سننے کے لیے ان کے پاس وقت نہ ہو۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی وسیع نظر میں اپنے حلقے کے مسائل نہیں بلکہ قوم کو درپیش وہ چیلینجز ہیں جن کا توڑ صرف ان کے پاس ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک پہیلی ہے کہ اپنے حلقے کے بنیادی مسائل حل کرنے کی استعداد نہ رکھنے والا قاعد سارے ملک کے حالت کو کیسے بدلے گا؟

عمرانی انقلاب لانے والوں نے پاکستان کی آئندہ نسلوں کی صحت کے بارے میں جو فکر انگیز وضاحتیں بنائی تھیں ان میں سے ایک کا تعلق چھوٹے بچوں کی زندگیوں سے تھا۔ اسی وجہ سے عمران خان انقلاب سے پہلے بچوں کی نشونما کے بارے میں قوم کو ہر دوسرے روز آگاہ کرتے تھے۔ وہ اس سنجیدگی اور یقین کے ساتھ خوفناک حقائق دہراتے تھے کہ آنکھیں پر نم اور دل سوز سے بھر جاتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ فورا گھر سے نکلیں اور اس تمام نظام کو تہس نہس کر کے ’حاضر ہیں عمران حاضر ہیں‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے بنی گالہ کی پہاڑی کے نیچے جمع ہو جائیں۔

یہ وہ دور تھا جب نون لیگ کی حکومت پولیو کے خاتمے کی مسلسل کوشش کے باوجود مکمل نتائج حاصل نہ کرنے کی وجہ سے زیر عتاب تھی۔ ہم سب یہ سمجھنے سے قاصر تھے تمام تر بین الاقوامی مدد اور معاشی وسائل مہیا کیے جانے کے باوجود نون لیگ کی نااہل حکومت پولیو وائرس سے جان چھڑانے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟ پاکستان کیوں افغانستان کے علاوہ دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں یہ قدیم بیماری معصوم بچوں کو زندگی بھر کے لیے معزور کر رہی ہے۔

پولیو کا حتمی خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی سبکی بھی ہو رہی تھی اور پاکستان سے جانے والے مسافروں کی مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں۔ سب کا یہی خیال تھا کہ پولیو کا وائرس تب ہی جائے گا جب نواز شریف نکالا جائے گا۔ پھر دانشور فلسفیوں نے نواز شریف کو نکالا اور اس کو اس کے خاندان سمیت جیل میں ڈال دیا۔ پنجاب میں بزدار اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دلیری سے حکومتیں لائی گئیں۔ مگر اب پتہ چلا ہے کہ پولیو کے وائرس نے پاکستان کے دشمنوں سے رابطے جوڑ کر عمرانی انقلاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

پولیو کے کیسز 2016 پاکستان میں 20 تھے،2017 میں آٹھ، 2018 میں بارہ جبکہ 2019 میں یہ تعداد 53 تک جا پہنچی ہے۔ خیبر پختونخوا جہاں سے عمرانی انقلاب کا بیشتر مواد حاصل کیا گیا، پولیو کے واقعات سب سے زیادہ ہیں یعنی 41۔ اس صورت حال پر مرغیوں اور انڈوں والے بل گیٹس نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور ایک خط کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کو اس مسئلے کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت کا احساس دلوایا۔

پنجاب کے سیکرٹری تعلیم کی طرح ملک کی انتظامیہ پولیو کے خاتمے کے معاملے پر متحرک ہو گئی ہے۔ اب جگہ جگہ پر پوسٹرز اور بینرز کے ذریعے پولیو وائرس کو انتباہ کیا جا رہا ہے کہ یا تو وہ یہ سرزمین چھوڑ دے اور یا سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے۔

مگر انقلاب کی سب سے بڑی بنیاد قرضوں تلے دبی ہوئی معیشت تھی جس نے ملک کو موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ اب سٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قرضوں کی صورت حال کچھ یوں ہے۔

انقلاب سے پہلے قرضے: 24ہزار 212 بلین [16ہزار 400 بلین اندرونی،7ہزار 800 بلین بیرونی]

انقلاب کے بعد قرضے: 31 ہزار 784 بلین [20ہزار 700 اندرونی،11ہزار 100 بلین بیرونی]

یعنی انقلاب کے بعد اندرونی قرضوں میں 26 فیصد اور بیرونی قرضوں میں 44 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر انقلاب کے پہلے سال دانش مند فلسفیوں نے ملک کی کمر کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش میں 31 فیصد مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اگر نئے قرضے پرانے قرضوں کو چکانے کے لیے لیے گئے ہوتے تو قرضوں میں بھیانک اضافہ نہ ہوتا۔ یہ تاریخی اضافہ قرضے چکانے کے لیے نہیں بلکہ انقلابی پاکستان کو چلانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

اب باقی رہی انصاف کے نظام کی تبدیلی تو اس کا اندازہ آپ کو جج ارشد ملک کے کیس میں 26 صفحات پر مبنی فیصلے سے ہو ہی گیا ہو گا۔ یہ جج اپنے عہدے پر رہنے کے قابل تو نہیں لیکن اس کے فیصلے پھر بھی معتبرہیں۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ انصاف کے حمام کی کیفیت کیا ہے۔ مگر پھر بھی انقلاب جاری رہے گا۔ اب چونکہ جنرل قمرجاوید باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی ہے لہذا یہ ملک مزید محفوظ ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔

انقلاب زندہ باد

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر