صدر نے الیکشن کی تاریخ دے دی تو کیا ہو گا؟

بادی النظر میں صدر مملکت کے رویے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کی جانب سے وزارت قانون و انصاف کے جوابی خط موصول ہونے پر وزارت قانون و انصاف کی ایڈوائس کو نظرانداز کر کے الیکشن کی تاریخ دینے کا امکان ہے۔

صدر عارف علوی 2023 میں ایوانِ صدر میں ایک مسودۂ قانون پر دستخط کرتے ہوئے (ایوانِ صدر)

الیکشن کمیشن آف پاکستان حلقہ بندیوں کے دورانیے کو محدود کر کے 30 نومبر کو حتمی گزٹ نوٹی فیکیشن جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اسی تاریخ کو نئی انتخابی فہرستوں کو بھی حتمی شکل دیتے ہوئے نوٹی فیکیشن کر کے آیندہ عام انتخابات کی تاریخ دینے پر چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ سے مشاورت کر رہا ہے۔

پاکستان کے تین چوتھائی صدی کے آئینی سفر کے باوجود اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا کوئی متفقہ اور خودکار نظام وضع نہیں کیا جا سکا جس کی موجودگی میں قوم کو علم ہو کہ اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لیے انہیں کب حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملے گا، اور انتخابات ہر لحاظ سے شفاف ہوں گے۔

بداعتمادی اور بدگمانی کا عالم یہ ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے برسر اقتدار حکومت کے ارباب بست و کشاد کے عمل کو شک و شبہ سے دیکھا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر الگ افواہوں کا بازار گرم ہے۔

بیورو کریسی کے جانبدارانہ طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے 1990 سے نگران حکومتوں کی تشکیل کا سلسلہ شروع کیا گیا جو دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک میں مروج ہو۔

لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس سے بھی بداعتمادی میں کوئی کمی نہیں آئی اور الیکشن کے بعد ہارنے والے نگران حکومتوں پر بھی بے ضابطگی کے الزامات لگاتے ہیں۔

سات اپریل 2022 سے شروع ہونے والے موجودہ سیاسی تناؤ کی شدت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی۔ صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت اور وزارت قانون سے قانونی رائے حاصل کرنے کے بعد بھی صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48(5) کا سہارا لے رہے ہیں، جب کہ ان کو ادراک ہے کہ 90 روز میں انتخابات کرانے کی راہ میں آئین کا آرٹیکل 51(5) حائل ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اپنے نظر شدہ روڈمیپ میں تبدیلی کر کے انتخابات جنوری یا فروری کے پہلے ہفتے میں کروانے کا سوچ رہا ہے اور الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کا مسئلہ کم کر کے الیکشن شیڈیول الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت جاری کر دے گا۔

بادی النظر میں صدر مملکت کے رویے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کی جانب سے وزارت قانون و انصاف کے جوابی خط موصول ہونے پر وزارت قانون و انصاف کی ایڈوائس کو نظرانداز کر کے الیکشن کی تاریخ دینے کا امکان ہے۔

ادھر اچانک قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوا ہے کہ صدر مملکت سے گذشتہ دنوں ملک کی اہم ترین شخصیت نے ایوانِ صدر میں صدر سے ملاقات کی ہے۔ ایوانِ صدر کے اندرونی حلقے اصرار کر رہے ہیں کہ چند روز ہوئے دو اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میڈیا کی ایک باخبر شخصیت نے مجھے بتایا کہ اس ملاقات کے دوران صدر کا فورتھ فلور، جہاں صدر مملکت کا صدارتی چیمبر ہے اور وہاں کسی کو بھی آمد و رفت کی اجازت نہیں تھی، وہیں پر صدر مملکت اور دو اہم ترین شخصیات کی موجودگی میں ملک کو آئینی و قانونی بحران سے بچنے کے لیے کوئی متبادل راستہ تلاش کیے جانے پر غور کیا گیا۔

قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ آئندہ 72 گھنٹوں میں صدر مملکت بریکنگ نیوز جاری کرنے والے ہیں اور الیکشن کی تاریخ کا تعین کر دیں گے، جس سے ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی آئینی درخواستوں پر سماعت کرنی ہے۔

اسی آئینی کشمکش کے تناظر میں صدر کے عہدے کی معیاد نو ستمبر کو ختم ہو رہی ہے لیکن صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 44 کا سہارا لیتے ہوئے اپنی آئینی مدت کو اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔

صدر مملکت آئینی طور پر کسی اہم شخصیت سے ملاقات کا استحقاق تو رکھتے ہیں لیکن ان کو وزیراعظم پاکستان کو چائے پر مدعو کر کے اعتماد میں لینے کا بھی آئین میں ذکر ہے اور وزیراعظم پاکستان کو بھی آئین کے مطابق صدر مملکت کو بریفنگ دینی ہوتی ہے۔

اب اگر صدر مملکت نے زمینی حقائق کے برعکس الیکشن کی تاریخ کا اعلامیہ جاری کر دیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان دفعہ 58 کے تحت شیڈیول میں رد و بدل اور تاریخ تبدیل کرنے کا قانونی استحقاق رکھتا ہے۔

اس کے بعد یہ معاملہ لازمی طور پر اعلیٰ عدالتوں کے سامنے رکھا جائے گا، جس سے ملک میں ایک نیا آئینی اور قانونی بحران پیدا ہو جائے گا۔

اگر ایسا ہوا تو اس سے ملک کی موجودہ دگرگوں معاشی صورتِ حال مزید ابتر ہونے کا خطرہ ہے جس کا یہ ملک ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر