دریائے سوات کا پانی اب کیوں پینے کے قابل نہیں؟

ماحولیاتی تحفظ کے ادارے میں کام کرنے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ماہر ماحولیات محمد ریاض دریائے سوات میں گندگی کی سب سے بڑی وجہ اس کے کنارے پر موجود آبادی کو قرار دیتے ہیں۔

محکمہ آبپاشی کے مطابق 2020 سے 2023 کے دوران ضلع سوات کی حدود میں دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی تجاوزات کے خلاف چار بڑے آپریشن کیے گئے اور تقریبا 90 غیر قانونی تجاوزات کو ہٹایا گیا (وقار احمد سواتی)

’جب میں جوان تھا ہم دریائے سوات کا پانی پینے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ گھروں کو بھی لے کر جاتے تھے۔ بہت میٹھا ہوتا تھا۔ تب یہ دریا اور اس کا پانی صاف اور شفاف ہوا کرتے تھے۔‘

یہ کہنا تھا دریائے سوات کے کنارے واقع ایک گاؤں کے 60 سالہ رہائشی بدا خان کا، جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دریائے سوات کے پانیوں میں آنے والے تغیر کو دیکھتے گزارا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بدا خان کا کہنا تھا کہ اب دریائے سوات کا پانی گندا ہوتا جا رہا اور پینے کے قابل نہیں رہا۔ ’2010 اور 2022 کے سیلابوں نے بھی دریائے سوات کے حسن کو تباہ کرنے میں کردار ادا کیا۔‘

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب سوات کے مقامی لوگ اور سیاح دریائے سوات کے صاف و شفاف پانی کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے، بلکہ اسے پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

تاہم اس وقت دریائے سوات کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ نہ اس کا پانی پہلے جیسا میٹھا رہا ہے اور نہ ماضی کی خوبصورتی نظر آتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت ایک سے زیادہ سرکاری اداروں اور محکموں سے دریائے سوات کے ڈھلتے حسن اور پانی کی مٹھاس میں کمی سے متعلق معلومات حاصل کیں۔

بے ہنگم تعمیرات

ماضی کے برعکس اس وقت دریائے سوات کے دونوں کناروں کے اکثر مقامات پر مکانات، مارکیٹیں، ہوٹلز اور ریستوران نظر آتے ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ کے ادارے میں کام کرنے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ماہر ماحولیات محمد ریاض دریائے سوات میں گندگی کی سب سے بڑی وجہ اس کے کنارے پر موجود آبادی کو قرار دیتے ہیں۔

’آبادی کا گندا پانی سیدھا دریائے سوات میں گرتا ہے اور پانی کو گندا کرنے کا باعث بنتا ہے۔‘

دریائے سوات کے میٹھے پانی کو خراب کرنے میں اس کے کنارے بنے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے نکلنے والے فضلے اور گندگی نے اہم کردار ادا کیا۔

مقامی آبادی کے نکاس کا پانی بھی دریائے سوات میں ہی بہہ جانے سے میٹھا اور دوائی کے طور استعمال ہونے والا پانی خراب ہوتا گیا۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ واٹر اینڈ سینیٹشن سروسز سے معلومات تک رسائی ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق 2017 کی مردم شماری کے مطابق سوات کے آبادی 23 لاکھ 9 ہزار 570 ہے، جبکہ مینگورہ شہر کی نیبر ہوڈ کونسلز میں تین لاکھ 88 ہزار افراد رہتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق مینگورہ شہر سے روزانہ تقریبا 80 لاکھ گیلن گندا پانی دریائے سوات میں آتا ہے، جو ایک اندازے کے مطابق 2045 تک ڈیڑھ کروڑ گیلن یومیہ سے زیادہ ہو جائے گا۔

واٹر اینڈ سینیٹشن سروسز مینگورہ کے جنرل منیجر ذیشان پرویز نے کہا کہ دریائے سوات کے لیے سیوریج کا پانی انتہائی نقصان دہ ہے اس کے لیے گھروں میں سیپٹک ٹینک بنائے جانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ علاقے کے سیوریج پانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ڈبلیو ایس ایس سی نے ایک ماسٹر پلان تیار کیا ہے تاہم انہوں نے عوام کو گھر سرکاری طور پر منظور شدہ نقشے کے مطابق بنانے اور سیپٹک ٹینک لگانے کی ہدایت کی۔

’دریائے سوات کے پانی کو صاف بنانے اور رکھنے کے لیے عوام کو کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ گندا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہونے کے علاوہ دریا میں پائے جانے والی زندگی کو بھی نقصان پہچاتا ہے۔‘

محمد ریاض کا کہنا تھا: ’دریا کے پانی میں پائی جانے والی گندگی سے ٹراوٹ مچھلی اور دوسری سواتی مچھلیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں جبکہ بعض آبی حیات کی نسل کشی بھی ہو رہی ہے۔‘

محکمہ آبپاشی کے مطابق 2020 سے 2023 کے دوران ضلع سوات کی حدود میں دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی تجاوزات کے خلاف چار بڑے آپریشن کیے گئے اور تقریبا 90 غیر قانونی تجاوزات کو ہٹایا گیا۔

دریا کے تحفظ کے ایکٹ کے مطابق دریا کے سیلابی میدان کے آٹھوں اطراف سے 200 فٹ کی حدود میں عمارتوں کی تعمیر پر پابندی ہے تاہم اراضی کو زرعی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دریا میں کھدائی

محمد ریاض نے کہا کہ دریا کے اندر غیر قانونی کھدائی نے بھی پانی کے معیار کو اثر انداز کیا ہے۔

گذشتہ کئی برسوں سے دریائے سوات تعمیرات میں استعمال ہونے والی ریت اور کرش حاصل کرنے کا بھی ذریعہ بنا ہوا ہے، جس کے لیے بھاری مشینیں لگی ہوئی ہیں۔

ریت اور کرش کے نکاس نے دریائے سوات کے قدرتی حسن کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ دریا میں بڑے بڑے گڑھے بھی پڑ گئے ہیں۔

دریائے سوات کے کنارے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی خاتون خانہ ثمرین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مینگورہ اور کانجو کے قریب دریائے سوات میں ریت نکالی جاتی ہے، جس کے لیے بھاری مشینوں کا استعمال ہوتا ہے۔

’دریا میں بڑے بڑے کھڈے دیکھے جا سکتے ہیں جن سے دریا کی وہ خوبصورتی ختم ہو گئی ہے۔‘

سیلاب کے اثرات

سال 2010 کے سیلاب سے پہلے دریائے سوات کے کنارے سرسبز کھیت اور ہریالی نظر آتی تھی اور پانی میں سے خوبصورتی جھلکتی تھی۔

سیلاب نے اس دریا کے قدرتی حسن کو تباہ کر دیا ہے اور کالام سے مینگورہ تک دریائے سوات میں بڑے بڑے پتھر اور ریت ہی ریت نظر آتے ہیں۔

محکمہ آب پاشی سوات سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق دریائے سوات کی لمبائی کالام بازار سے چارسدہ تک 240 کلومیٹر ہے اور کالام سے لنڈا کے تک ضلع سوات کے حدود میں آبادی بھی موجود ہے۔

محکمہ آبپاشی میں ہائیڈرولوجی ڈویژن کے ریکارڈ کے مطابق دریائے سوات سے روزانہ اوسطاً چھ ہزار کیوسک سے زیادہ پانی خارج ہوتا ہے۔

26 اگست 2022 کو ضلع سوات میں خوازہ خیلہ گیج اسٹیشن کے مقام پر دو لاکھ 46 ہزار کیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا، جو انتہائی اونچے درجے کا سیلاب تھا۔

دریائے سوات کا پانی

ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ خیبر پختونخوا سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے ذریعے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق دریائے سوات کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں دریائے سوات پر کالام،بحرین، مدین اور فضاگٹ کے مقامات سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔

کالام سے حاصل کیے گئے پانی میں قومی معیار ’نیشنل انوائرمینٹل کوائلٹی سٹینڈرڑ (این ای کیو ایس) 150 کے مقابلے میں نتیجہ 119 رہا، جبکہ بحرین کے پانی کا 220، مدین کا 415 اور فضاگٹ میں پانی کا معیار 460 این ای کیو ایس تھا۔

این ای کیو ایس 150 سے زیادہ ہو تو وہ پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔

ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سوات کا پانی کالام سے نیچے کے طرف آتا ہے تو گندہ ہوتا جاتا اور پینے کے قابل نہیں رہتا۔

کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ کے ٹیسٹوں نے ثابت کیا کہ کالام، بحرین، مدین اور فضاگٹ کے مقامات پر قانون کی خلاف ورزیاں ثابت ہوئیں ہیں۔

پانی کی سطح پر آکسیجن لیول کو چیک کرنے کی غرض سے کیے گئے سروے سے ثابت ہوا کہ انہیں مقامات پر دریائے سوات کے پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن لیول، ٹمپریچر، پی ایچ لیول اور ڈی او لیول ٹھیک تھا۔ جبکہ فضاگٹ کے مقام پر اس لیول کو ناقص قرار دیا گیا ہے۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ جوں جوں دریائے سوات کا پانی نیچے آبادی والے علاقے میں آتا ہے تو یہ گندہ ہوتا جاتا ہے اور پینے کے قابل نہیں رہتا۔

سوات میں کام کرنے والی ماحولیاتی تحفظ کے ادارے سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق سروے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دریائے سوات کا پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

دریائے سوات کے کنارے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی خاتون سمرین کا کہنا تھا: ’زیادہ پرانی بات نہیں جب ہم گرمیوں میں گھر والوں کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے آتے تھے۔ ہمیں یہاں ایک سکون محسوس ہوتا ہے۔ تب پانی بالکل صاف ہوا کرتا تھا جو ہم پیتے بھی تھے۔‘

انہوں نے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اکثر خواتین دریائے سوات کے پانی میں کپڑے بھی دھوتی تھیں۔

’لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔ تاہم بالائی علاقوں کی خواتین اب بھی دریا کے پانی میں کپڑے دھوتی ہیں کیونکہ وہاں پانی صاف ہے۔‘

ہوٹلز ایسوسی ایشن کا مؤقف

آل سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن ضلع سوات کے صدر الحاج زاہد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دریائے سوات کے کنارے لنڈاکے سے کالام تک 40 سے 45 ہوٹل موجود ہیں، جن میں سیپٹک ٹینک لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے دریائے سوات میں گندے پانی کے حوالے سے کہا کہ ہوٹلوں کے علاوہ بالائی علاقوں کی 12 لاکھ آبادی ہے، جس سے گندا پانی دریائے سوات میں گرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات