کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ کپ کے آغاز میں اب دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور ٹورنامنٹ میں شامل تقریباً تمام ٹیمیں اپنے سکواڈز کا اعلان کر چکی ہیں، لیکن پاکستان ابھی تک اپنی ٹیم فائنل نہیں کر سکا ہے۔
پاکستان کی طرح سری لنکا اور بنگلہ دیش نے ابھی تک سکواڈز کا اعلان نہیں کیا۔
اگرچہ ایشیا کپ کے لیے ٹیم اعلان کرتے ہوئے پی سی بی اور کپتان بابر اعظم نے واضح کر دیا تھا کہ ورلڈ کپ کی ٹیم کم و بیش یہی ہو گی لیکن ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی نے ٹیم کا صرف مورال ہی نہیں کمزور کیا بلکہ ٹیم کمبینیشن کو بھی متاثر کیا ہے۔
وہ ٹیم جو ایک ماہ قبل تک اپنے سکواڈ اور کارکردگی پر بہت پر اعتماد نظر آ رہی تھی اب بےچینی اور اضطراب کا شکار ہے۔
کیا ٹیم کسی گروہ بندی کا شکار ہے؟
روایتی طور پر پاکستانی ٹیم کی ہر شکست کے پس منظر میں گروہ بندی اور غیر ذمہ داری کا کھیل ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن گذشتہ ایک سال سے بابر اعظم کی قیادت میں ٹیم کے تمام ارکان اس بات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں کہ کوئی اختلافات یاگروپنگ ہے۔
بابر اعظم جنہیں سرفراز احمد اور اظہر علی کی جگہ کپتان بنایا گیا تھا بہت تیزی سے ٹیم کے تمام معاملات پر حاوی ہو گئے۔ اپنی شاندار کارکردگی کے باعث وہ کبھی انفرادی ہدف تنقید نہیں بن سکے ہیں لیکن کپتان کی حیثیت سے ان کے فیصلے اور کھلاڑیوں کی شمولیت پر ان پر بہت تنقید کی جاتی رہی ہے۔
دوسری طرف کچھ ذرائع ٹیم میٹنگ میں بابر اعظم اور شاہین شاہ کے درمیان گرما گرمی کی خبر دے رہے تھے لیکن شاہین شاہ کی شادی میں شرکت اور ان کے ساتھ بابر اعظم کی تصویر نے اگرچہ بہت حد تک غلط فہمیوں کو لگام دے دی ہے، لیکن ایک اوپننگ بلےباز پر شک کیا جا رہا ہے کہ وہ میٹنگ کی باتیں اپنے مفاد کے لیے میڈیا کو دیتے ہیں۔
فاسٹ بولروں کی پریشانی
پاکستان ٹیم کو اس وقت سب سے بڑی الجھن فاسٹ بولروں کی قلت کی ہے۔ نسیم شاہ کے اچانک زخمی ہو جانے سے ٹیم میں بھونچال آ گیا ہے۔ نسیم شاہ پاکستان کے اہم ترین بولر ہیں اور گذشتہ ایک سال سے ان کی بولنگ میں نکھار اور مہارت نے انہیں وقت سے پہلے ٹیم کی ضرورت بنا دیا ہے۔ ان کی غیر موجودگی سے فاسٹ بولروں کا کمبینیشن تو خراب ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کا متبادل بھی دستیاب نہیں ہے۔
ٹیم کا تھنک ٹینک حسن علی اور زمان خان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا چاہتا ہے۔ حسن علی گذشتہ 14 ماہ سے پاکستان کی طرف سے نہیں کھیلے۔ وہ زخمی بھی رہے ہیں لیکن کاؤنٹی کرکٹ میں واروکشائر کی نمائندگی کرکے اپنی فارم تو واپس لے آئے ہیں مگر سیلیکٹرز اعتماد نہیں کر رہے۔
زمان خان ناتجربہ کار ہیں اور ابھی انہیں بڑے ٹورنامنٹ کا ماحول سمجھنا ہے۔
محمد حسنین اور احسان اللہ متبادل ہو سکتے ہیں لیکن دونوں اپنی فٹنس کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔
اگر حارث رؤف بھی زخمی ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی فاسٹ بولنگ کا سارا دارومدار شاہین شاہ آفریدی پر ہو گا۔
سپنرز بھی آؤٹ آف فارم
پاکستان ٹیم کو اس بات کا ادراک تھا کہ اس سال ورلڈ کپ کھیلنا ہے اور سپنروں کا خاص کردار ہو گا لیکن غلط منصوبہ بندی اور حد سے زیادہ فرنچائز کرکٹ کھیلنے کے باعث تجربہ کار شاداب خان غیر موثر ہو چکے ہیں جب کہ اسامہ میر سپیشلسٹ سپنر ہونے کےباوجود زیادہ نہیں کھیل سکے ہیں۔
شاداب خان کی ایشیاکپ میں بدترین کارکردگی نے سیلکٹروں کا ذہن بنا دیا ہے کہ انہیں ڈراپ کر دیا جائے۔ تاہم ابھی تک وہ بھارت کی فلائٹ پر موجود ہیں۔
محمد نواز انڈیا میں موثر ثابت ہوں گے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر انہیں بہت کم بولنگ ملتی ہے۔
افتخار احمد جزوقتی آف سپنر ہیں لیکن اب تواتر کے ساتھ بولنگ کر رہے ہیں۔ شاید وہ پاکستان کے نمایاں سپنر ہوں گے لیکن ان کی بولنگ میں ورائٹی نہ ہونے کے سبب زیادہ توقعات نہیں ہیں۔
کچھ ذرائع ابرار احمد کی شمولیت کی خبر دے رہے ہیں لیکن حتمی طور پر کوئی بھی تبدیلی ابھی تک زیر غور نہیں آئی ہے۔ ابرار احمد کو مسٹری سپنر کہا جاتا ہے۔ اب انڈیا میں ان کا خفیہ ہاتھ چل بھی سکے گا یا نہیں؟
بلے بازوں میں مستقل مزاجی کا فقدان
ایشیا کپ میں شکستوں کے انبار نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ٹیم کے بلے بازوں میں مستقل مزاجی کی بہت کمی ہے۔
اوپننگ میں فخر زمان کی مستقل ناکامی نے بیٹنگ پر بہت بوجھ بڑھا دیا ہے۔ وہ رنز کرنے سے تو قاصر ہیں لیکن اس کے ساتھ اب ان کے ریفلیکسز بھی سست پڑ گئے ہیں، لیکن منیجمنٹ انہی کو کھلانا چاہتی ہے۔
امام الحق بھی ایک اچھی اننگز کھیلتے ہیں تو دو خراب کھیلتے ہیں۔ یہی حال محمد رضوان اور سلمان آغا کا ہے۔
ٹیم میں آل راؤنڈر کی حیثیت سے کھیلنے والے فہیم اشرف بلے باز ہیں نہ بولر۔ دونوں میدانوں میں واجبی کارکردگی کے باوجود کسی کے تو منظور نظر ہیں۔
ایک بابر اعظم ہیں جو مستقل مزاجی سے کھیلتے ہیں لیکن فیصلہ کن موقعوں پر وہ بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔
بیٹنگ کمبینیشن ڈانواں ڈول
پاکستان ٹیم منیجمنٹ بیٹنگ کی ناکامی کے باوجود ابھی تک یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ بابراعظم کے بعد ایک مستند بلے باز کی اشد ضرورت ہے۔ محمد رضوان چوتھے نمبر پر ابھی تک اپنی بیٹنگ سے انصاف نہیں کر پائے ہیں، جبکہ باقی بلے باز خود کو آل راؤنڈر سمجھتے ہیں، جس سے ان کی توجہ کی کمی ان کی بیٹنگ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
سعود شکیل کی سکواڈ میں موجودگی کے باوجود ان کو نہ کھلایا جانا کسی کی تسکین تو ہو سکتا ہے لیکن ٹیم کے مفاد میں قطعی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ٹیم کے ذمہ داران کو سوچنا ہو گا کہ اس تاخیر کے ساتھ ٹیم کا اعلان حریف ٹیموں کو مزید مضبوط کر رہا ہے یا نہیں۔
انڈیا سمیت تمام ممالک اپنی ٹیمیں فائنل کر چکے ہیں اور اب دو بدو جنگ کے لیے تیار ہیں لیکن پاکستان کبھی ہاں اور کبھی نہ کا شکار ہے۔ شاداب خان اور فہیم اشرف کی بری کارکردگی نے دباؤ بنایا ہوا ہے کہ انہیں ڈراپ کر دیا جائے تاہم کپتان ایسا نہیں چاہتے اور اس فیصلے کے باعث اختلافات جنم لے رہے ہیں۔
پاکستان کو اگلے چند دنوں میں انڈیا کا سفر شروع کرنا ہے لیکن ٹیم ارکان کے ناموں کو حتمی شکل نہ دیے جانے کے باعث یہ سفر اپنے آغاز سے ہی مشکل اور حساس ہوتا نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کو اپنا پہلا میچ تو نیدر لینڈز کے خلاف کھیلنا ہے، جن کی مہربانی کے باعث پاکستان گذشتہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل پہنچا تھا لیکن پاکستان کا اصل مقابلہ 14 اکتوبر کو احمد آباد میں ہو گا جہاں بھارتی ٹیم 12 سال کے بعد اپنی سرزمین پر پاکستان کے خلاف ایک روزہ میچ میں میدان میں اترے گی ۔
پاکستان ٹیم کے ساتھ بورڈ کے حالات بھی اضطراب کی کیفیت کا شکار ہیں۔ عبوری چیئرمین ذکا اشرف بنا کسی استحقاق کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں، لیکن گذشتہ دنوں متعلقہ وزارت کی جانب سے ایک خط نے بورڈ کے سر کردہ افراد کو ہلا دیا ہے۔
غیر یقینی کیفیت اور اعتماد کے فقدان نے بورڈ کے افسران کے ساتھ کھلاڑیوں کو بھی سوچ وبچار میں ڈال دیا ہے کہ وہ ترازو کے کس پلڑے میں جائیں۔
سنٹرل کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے باعث بورڈ اور کھلاڑیوں میں کچھ کشیدگی ہے اور اگر یہ سارے عوامل برسر پیکار رہے تو پاکستان ٹیم کی ورلڈ کپ میں کارکردگی مایوسی سے بھی آگے جا سکتی ہے۔