سارہ شریف قتل کیس: برطانوی پولیس نے مقتولہ کی نئی تصاویر جاری کر دیں

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ یہ تصاویر ’مزید لوگوں کو سارہ اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ترغیب دیں گی۔‘

 سارہ شریف کی لاش 10 اگست کو سرے کے علاقے ووکنگ میں واقع ان کے گھر میں بیڈ پر کمبل میں لپٹی ہوئی پائی گئی تھی(تصویر: سرے پولیس)

برطانوی تفتیشی افسران نے 10 سالہ سارہ شریف کی نئی تصاویر جاری کی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد موت سے پہلے ’ان کی زندگی کی تصویر کشی کرنا ہے۔‘

لڑکی کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا فیصل ملک پر لڑکی کے قتل کا الزام ہے۔

 سارہ شریف کی لاش 10 اگست کو سرے کے علاقے ووکنگ میں واقع ان کے گھر میں بیڈ پر کمبل میں لپٹی ہوئی پائی گئی تھی۔

جمعے کو سرے پولیس نے سارہ کی دو نئی تصاویر جاری کی ہیں جن میں سارہ کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے ’جس کے بارے میں ہمارا ماننا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی موت سے پہلے کے مہینوں میں یہ لباس زیب تن کر رکھا ہو۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ یہ تصاویر ’مزید لوگوں کو (سارہ) ان کے اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ترغیب دیں گی۔‘

سکول کی ایک تصویر میں سارہ کو سیاہ رنگ کا حجاب پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ دوسری تصویر میں کم سن لڑکی نے نیلے رنگ کا حجاب لے رکھا ہے۔

قبل ازیں پولیس کی طرف سے جاری کی گئی ایک تصویر میں سارہ کے سر پر کوئی روایتی مسلم حجاب نہیں ہے۔

نوعمر لڑکی کے قتل کے تینوں ملزمان پر اگلے سال ستمبر میں مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہو گا اس سے قبل یکم دسمبر کو اولڈ بیلی کی عدالت میں مقدمے کی ایک سماعت ہو گی۔

اس سے قبل ہونے والی سماعت میں عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس کو 10 اگست کو رات دو بج کر 47 منٹ پر پاکستان سے کال موصول ہونے کے بعد سارہ کی لاش ملی۔ اس کال کا دورانیہ آٹھ منٹ اور 34 سیکنڈ تھا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ مدعا علیہان نے دو دن پہلے آٹھ اگست کو پاکستان جانے کے لیے پرواز کی بکنگ کروائی۔

پراسیکیوٹر جائلز بیڈلو نے اولڈ بیلی میں عدالت کو بتایا کہ سارہ کے جسم پر ’مندمل ہونے والے اور بھرتے ہوئے‘ زخم پائے گئے۔

سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل تینوں ملزم پانچ بچوں کے ساتھ برطانیہ سے پاکستان چلے گئے تھے۔ قانونی وجوہات کی بنا پر بچوں کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ووکنگ کے ہیمنڈ روڈ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں افراد 13 ستمبر کو برطانیہ واپس پہنچنے اور گیٹ وک ہوائی اڈے پر اترتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

ان تینوں کو ریکارڈر آف دا لندن، جج مارک لوکرافٹ کے سی نے اگلی عدالتی سماعت تک پولیس کے حوالے کر دیا۔

پولیس نے سارہ کی نئی تصویریں کیوں جاری کیں، اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سرے پولیس اور سسیکس پولیس کی میجر کرائم ٹیم سے تعلق رکھنے والے ڈیٹیکٹیو سپرنٹنڈنٹ مارک چیپ مین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ نئی تصاویر اس امید پر جاری کی ہیں کہ اس سے سارہ اور ان کے اہل خانہ کو جاننے والے مزید لوگ آگے آئیں گے۔

’ہم ان تمام افراد کے شکر گزار ہیں جنہوں نے پہلے ہی ہم سے رابطہ کیا اور میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ کوئی بھی معلومات، چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم کیوں نہ لگیں ان کا تحقیقاتی ٹیم جائزہ لے گی اور اگر مناسب ہوا تو مزید تحقیقات کی جائے گی۔

’میں ہر اس شخص جس کے پاس معلومات ہو سکتی ہیں اور وہ ابھی تک آگے نہیں آئے، سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمارے ساتھ رابطہ کریں۔

’آپ کے پاس ایسا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ آپ ہمارے پورٹل کے ذریعے معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ پورٹل انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ہے۔ اگر آپ فون پر بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ 101 پر کال کرسکتے ہیں۔ یا اگر آپ نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں تو خود مختار رفاہی ادارے کرائم سٹاپرز کو فون کریں۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اس اپیل کو ووکنگ میں تقسیم کیے گئے پمفلٹس کے ذریعے پہنچایا گیا ہے۔ پمفلٹ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور ساتھ ہی شہر کے ریلوے سٹیشن اور ٹیکسی سٹینڈز کے آس پاس پوسٹر بھی لگائے گئے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ