حلقہ بندی: ایم کیو ایم کا خیرمقدم، پی پی پی کا چیلنج کرنے کا اعلان 

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق ایک نشست کے اضافے کے بعد کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 21 سے بڑھ کر 22 ہوگئی ہے جب کہ تین نشستوں کے اضافے کے بعد کراچی میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں 47 ہوگئی ہیں۔  

یکم مارچ 2023 کی اس تصویر میں ادارہ برائے شماریات کے اہلکار کراچی میں ڈیجیٹیل مردم شماری کے لیے گھر گھر جاکر کوائف اکٹھے کر رہے ہیں (اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 27 ستمبر کو جاری کی گئی ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے جب کہ سندھ کے کچھ اضلاع میں قومی اسمبلی کی نشستیں کم ہوگئی ہیں۔ 

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سندھ کی قیادت نے کراچی میں نشستوں کے اضافے کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے نتائج کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

دوسری جانب جماعت اسلامی نے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم گننے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر درست مردم شماری ہوتی تو کراچی کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوتا۔ 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں قومی اسمبلی کی مجموعی جنرل نشستیں برقرار ہیں مگر کچھ اضلاع کی نشستوں میں ردوبدل دیکھنے میں آیا ہے۔

اس فہرست کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے اضافے کے بعد یہ نشستیں 21 سے بڑھ کر 22 ہوگئی ہیں جب کہ خیرپور، سانگھڑ اور ٹھٹھہ میں قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست کم ہوگئی ہے۔

ابتدائی فہرست کے مطابق خیرپور کی نشستیں سات سے چھ، سانگھڑ کی چھ سے پانچ اور ٹھٹھہ کی نشستیں تین سے کم ہو کر دو کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ نئی مردم شماری کے نتائج پر ہونے والی حلقہ بندیوں کے مطابق کراچی کی صوبائی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے جو  44 سے بڑھ کر 47 ہو چکی ہیں۔

سیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست میں کراچی میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا خیر مقدم کیا ہے۔ 

پارٹی کے ڈپٹی کنوینئر خواجہ اظہار الحسن نے مردم شماری کے نتیجے میں کراچی کی نشستوں میں اضافے کو ’ایم کیو ایم پاکستان کی جدوجہد‘ کا نتیجہ قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’گذشتہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم گنا گیا۔ ایم کیو ایم کے احتجاج کے بعد مردم شماری میں کراچی کی آبادی دو کروڑ گنی گئی، جس کے بعد اب نشستیں بڑھی ہیں، مگر اب بھی کراچی کی 70 سے 80 لاکھ آبادی کو مردم شماری میں نہیں گنا گیا ہے۔‘

خواجہ اظہار الحسن کے مطابق: ’کراچی میں انفراسٹرکچر کے استعمال، پانی، بجلی اور گندم کی کھپت کا اگر آبادی سے موازنہ کیا جائے تو کراچی کی آبادی بہت کم گنی گئی ہے۔ اگر درست مردم شماری ہو تو کراچی میں قومی اسمبلی کی 30 نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی 55 نشست ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے بغیر کسی سیاسی دباؤ کے کراچی کی نشستوں میں اضافہ کیا۔ یہ خوش آئند ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی کی آبادی کو مردم شماری میں درست گن کر مزید نشستوں کا اضافہ کیا جائے۔‘

پاکستان تحریک انصاف سندھ کی قیادت نے بھی کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں کے اضافے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’جمہوریت کا حسن‘ قرار دیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جعفر الحسن نے کہا: ’آبادی کے تناسب سے محدود آبادی کے لیے نشست مختص کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہاں کا منتخب نمائندہ اپنے ووٹر کی درست نمائندگی کرسکے۔ 

’مگر اصل خرابی مردم شماری میں ہوئی۔ مردم شماری میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے صوبے کی آبادی کو کم گنا گیا، جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ اگر آبادی کو درست گنا جاتا تو نشستوں میں مزید اضافہ ہوتا، مگر اس کے باوجود ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبے میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں ردوبدل کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی لیبر ونگ کے صدر سعید غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ابتدائی حلقہ بندیوں کی فہرست میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں تبدیلی الیکشن کمیشن کا ذاتی فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ ردوبدل حال ہی ہونے والی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جب مردم شماری ہو رہی تھی، ہمیں تب ہی اندازہ تھا کہ کون سے ضلع میں قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستیں کم یا زیادہ ہوں گی کیوں کہ الکیشن کمیشن ایک فارمولے کے تحت مردم شماری کے نتائج پر ہی قومی اور صوبائی نشستوں میں ردوبدل کرتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اس لیے اس ردوبدل کا خیرمقدم کرنا یا اسے رد کرنا درست نہیں۔ ہم سجمھتے ہیں کہ نشستوں میں ردوبدل 70 فیصد درست ہے جب کہ 30 فیصد درست نہیں، جسے پی پی پی الیکشن کمیشن میں چیلنج کرے گی۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ عام تاثر ہے کہ کچھ اضلاع میں نشستوں میں ردوبدل سے پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوا ہے؟ سعید غنی نے کہا: ’خیرپور، سانگھڑ اور ٹھٹھہ میں قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست کم ہوئی ہے۔ جو نشسست کم ہوئی وہ بھی تو پی پی پی کی نشست تھی تو اس سے پی پی پی کو کیا فائدہ ہوا ہے؟‘

انہوں نے مزید کہا: ’کراچی میں ردوبدل سے پیپلز پارٹی پر کچھ فرق پڑا ہے مگر اس کے باجود پی پی پی عام انتخابات میں ماضی سے زیادہ نشستیں جیت کر دکھائے گی۔‘

دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر درست مرد شماری ہوتی تو کراچی میں مزید نشستیں بڑھتیں۔ 

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا: ’کراچی کی پوری آبادی یعنی ساڑھے تین کروڑ ظاہر کی جاتی تو کراچی میں قومی اسمبلی کی محض ایک نہیں کم از کم 10  اور صوبائی اسمبلی کی 15 سے 18 نشستیں بڑھ جاتیں۔‘

الیکشن کمیشن کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں پر 27 اکتوبر تک اعتراض جمع کروایا جا سکتا ہے، جنہیں سننے کے بعد حتمی حلقہ بندیوں کا اعلان کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان