پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ہفتے کو الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں آئین کے مطابق الیکشن کا انعقاد کروائے۔
ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پی پی پی کے آفیشل ہینڈل سے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ ’مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر پورا اعتماد ہے۔
سابق صدر نے نگران حکومت پر زور دیا کہ خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالے۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ ’ملک اس وقت ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کے لیے ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے کیوں کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔‘
الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کروائے، سابق صدر آصف علی زرداری
مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے، آصف علی زرداری
چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر ہمیں پورا اعتماد ہے، آصف علی زرداری
نگران حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں کو جلد از جلد… pic.twitter.com/SsC9FG61c8— PPP (@MediaCellPPP) September 9, 2023
پی پی پی کے رہنما کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں میڈیا سے بات چیت کے دوران بروقت اور 90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کرانے کے مطالبہ کیا تھا۔
بلاول بھٹو نے آج بدین میں کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیوٹو کمیٹی کا ایک اجلاس کراچی میں ہوا تھا، جس کی صدارت انہوں نے اور آصف علی زرداری نے مشترکہ طور کی تھی۔
بلاول کے مطابق اس اجلاس میں پارٹی کے قانونی ماہرین نے بتایا تھا کہ آئین کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد 90 دنوں کے اندر ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کے بیان کا انہی سے پوچھا جانا چاہیے۔ ’گھر کے معاملوں میں میں زرداری صاحب کی باتوں کا پابند ہوں، جہاں تک آئین، سیاست اور پارٹی پالیسی کا تعلق ہے تو میں اپنے کارکنوں اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلوں کا پابند ہوں۔‘
بلاول نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو درپیش جو معاشی مشکلات ہیں، پہلے کبھی نہیں تھیں۔ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ الزام تراشی سے آگے نکلیں، اور مسائل کا حل نکالیں۔
انہوں نے نگران حکومت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس طرح بجلی، پیٹرول اور ڈالر کی قیمتیں کم ہوجائیں اور عوامی مسائل ختم کردیے جائیں تو ہمیں اور پاکستان کے عوام کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
’میرے خیال میں موجودہ معاشی بحران جتنا سنگین ہے اس کا حل اس طرح نہیں نکل سکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف عوام کے منتخب نمائندے نکال سکتے ہیں۔‘
آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت قومی اسمبلی (این اے) کی تحلیل کے بعد انتخابات کے انعقاد کی 90 دن کی حد نو نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔
الیکشن کمیشن نے نئی ڈیجیٹل 2023 مردم شماری کے نتائج کے نوٹیفکیشن اور الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 17(2) کی بنیاد پر انتخابات کو نو نومبر سے آگے بڑھانے کے اپنے فیصلے کی وجہ بتائی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق: ’کمیشن مردم شماری کو باضابطہ طور پر شائع ہونے کے بعد حلقوں کی حد بندی کرے گا۔ ‘
اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کو مقررہ 90 روز میں کرانے پر زور دیتی آئی ہے۔
پی پی پی نے 90 دن کی آئینی ڈیڈ لائن سے آگے کی حد بندی کے شیڈول کا اعلان کرنے پر الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بروقت انتخابات کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان 19 اگست کو کہا تھا کہ حلقہ بندیوں کے لیے ای سی پی کا شیڈول ’تشویش اور مایوسی‘ کا باعث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اپنی حکمت عملی سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تیاری اور حلقہ بندیوں کے لیے کافی وقت فراہم کیا تھا۔
ان کے بقول: ’پی پی پی نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کی توثیق کی تھی کیوں کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ موجودہ نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ انتخابات کو غیر ضروری طور پر ملتوی نہیں کیا جائے گا۔‘
سینیٹر شیری رحمان نے الیکشن کمیشن سے آئین کے آرٹیکل 224 کی شقوں کے مطابق انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا۔
پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما رضا ربانی نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا 14 دسمبر کو حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کرنے کا اعلان آرٹیکل 224 کی خلاف ورزی ہے۔
سابق چیئرمین سینیٹ نے مزید کہا کہ آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے حلقہ بندی کی ٹائم لائن کو مکمل کیا جانا چاہیے تھا۔
ان کے بقول: ’اگر الیکشن کمیشن کے پاس حلقہ بندی کے عمل کے لیے عملے کی کمی ہے تو وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کام کو تیزی سے مکمل کرنے اور 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کے لیے اضافی عملہ فراہم کرنے کا کہہ سکتا تھا۔‘