گلگت بلتستان: کیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی راہیں جدا ہیں؟

گلگت بلتستان میں ہر جماعت کی کوشش ہے کہ ان کا امیدوار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے، تاہم زمینی حقائق کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔

موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو گلگت بلتستان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت ہے (وکی میڈیا کامنز)

گلگت بلتستان میں سیاسی کشمکش جاری ہے اور اس حوالے سے قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، جو وفاق میں اتحادی ہیں، گلگت بلتستان میں بھی یہ اتحاد قائم رکھ سکیں گی یا راہیں جدا کرلیں گی؟ 

گلگت بلتستان کے نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب جمعرات کو ہونا تھا تاہم اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے اسے روکنے کے لیے سپریم اپیلٹ کورٹ میں درخواست دائر کی جس کے بعد عدالت نے اس سے متعلق حکم امتناع جاری کر دیا۔

عدالت نے اسمبلی کے سپیکر کو آئین و قوانین کے مطابق جمعے کو نیا الیکشن شیڈول پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ’کم از کم 72 گھنٹے میں اسمبلی کے تمام ارکین کو گلگت بلتستان اسمبلی رولز آف پروسیجراینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2017 کے تحت بذریعہ پریس، ٹیلی ویژن اور تحریری نوٹس شیڈول سے آگاہ‘ کرنے کا کہا ہے۔

جہاں ایک طرف سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید کی عدالت سے جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کے بعد صوبے میں سیاسی صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے وہیں دوسری جانب وفاقی حکومت بھی اس معاملے پر متحرک نظر آ رہی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال، مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ اور پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کا کام موجودہ حالات کے پیش نظر سفارشات مرتب کرنا ہے۔

اسمبلی میں پارٹی پوزیشن اور نمبر گیم

گلگت بلتستان میں ہر جماعت کی کوشش ہے کہ ان کا امیدوار وزارت اعلی کی کرسی پر بیٹھے تاہم زمینی حقائق کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں۔

موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اکثریت ہے۔

33 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں 20 اراکین پی ٹی آئی، چار پیپلز پارٹی، تین مسلم لیگ ن، تین مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، ایک جمعیت علمائے اسلام، ایک اسلامی تحریک پاکستان اور ایک آزاد رکن ہیں۔ کسی بھی رکن کو وزیر اعلیٰ بننے کے لیے 17 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ 

پی ٹی آئی کی 20 نشستوں کے علاوہ اپوزیشن کے پاس صرف نو نشستیں ہیں جبکہ باقی اراکین حکومتی جماعت کے اتحادی ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کی جماعتوں کے متعلقہ امیدواروں یا مشترکہ امیدوار کا جیتنا مشکل لگ رہا ہے۔ تاہم یہ ایک صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اپوزیشن کے کسی امیدوار کو ووٹ دے سکیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایسے میں کیا پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن الگ الگ یا پھر وفاق میں حکومتی اتحاد کی طرح گلگت میں مل کر وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اپنا مشترکہ امیدوار بٹھانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں؟ پیپلزپارٹی یا ن لیگ کے لیے یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اور کیا تحریک انصاف کے اراکین ان جماعتوں سے رابطے میں ہیں؟

مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رسمی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔

ان کے مطابق پی ٹی آئی نے قوانین کو معطل کرتے ہوئے اپنے 17 اراکین کو جمع کر کے 11 بجے شیڈول جاری کروایا، 12 بجے تک کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت دیا۔

’کئی اراکین اسلام آباد میں نہ ہونے کے باعث ہم نے استدعا کی کہ انتخاب میں کم از کم 24 گھنٹے کا وقت ہونا چاہئے۔ جس کے بعد عدالت نے حکم امتناع جاری کیا۔‘

دوسری جانب گذشتہ روز اپوزیشن جماعتوں نے سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔ 

حافظ حفیظ نے بتایا: ’پی ٹی آئی میں کئی دھڑے ہیں، اسی حوالے سے آج اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بھی ہوگا جہاں ان میں سے کسی دھڑے کا ساتھ دینے یا ان کا دھڑا اپنے ساتھ ملانے پر غور ہوگا۔ حالانکہ اپوزیشن کے تمام اراکین ملا کر بھی تعداد مکمل نہیں ہے۔‘

منحرف ہونے سے متعلق قانون سازی

مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ  نے کہا، ’تحریک میں پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر اراکین کے منحرف ہونے سے متعلق شق کو ہٹا دیا تھا۔ عموماً وفاقی حکومت وفاقی قانون کی توسیع گلگت بلتستان میں بھی کرتی ہے لیکن پی ٹی آئی نے ایسا نہیں کیا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی آج کہہ رہی ہے کہ اراکین انحراف کر رہے ہیں۔ اس شق کو پی ٹی آئی نے حزف کیا اور توسیع نہیں کی۔‘

انہوں نے کہا اس وقت ایسا اس لیے کیا کہ آئندہ الیکشن یعنی 2020 میں یہ نشستیں نہیں جیت سکیں گے اس لیے دوسری جماعتوں سے لوگ توڑ کر حکومت بنا لیں گے۔

گلگت بلتستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کی سال 2020 میں قانون سازی کرتے ہوئے توسیع کے بعد اراکین اسمبلی کے منحرف ہونے سے متعلق شق نکال دی گئی تھی۔

اس سے قبل گلگت بلتستان میں انحراف کرنے سے متعلق شق موجود تھی۔ اس قانون سازی کے بعد کسی بھی رکن اسمبلی کی جانب سے فلور کراسنگ کرنے پر منحرف کرنے کی شق لاگو نہیں ہو سکتی۔

پی ٹی آئی اراکین کے مسلم لیگ ن سے رابطوں میں ہونے سے متعلق سوال پر حافظ حفیظ نے بتایا کہ کئی اراکین اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں۔

’ان میں سے چار افراد پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں جن میں گل بر خان، فضل رحیم، حاجی شاہ بیگ، سید امجد علی زیدی شامل ہیں، جو کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان افراد کے علاوہ تین افراد مسلم لیگ ن سے رابطے میں ہیں۔‘

حافظ حفیظ نے بتایا کہ اپوزیشن جماعتیں مشترکہ امیدوار بھی نامزد کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

’لیکن گلگت بلتستان میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہے۔ ریاست کی ساری مشینری لگانے کے باوجود پی ٹی آئی نے سات نشستیں حاصل کیں۔ تاہم اگلے دو اڑھائی سال ن لیگ اور پی پی پی کا اکٹھا چلنا مشکل ہے کیونکہ دونوں جماعتوں سے ایک دوسرے کے خلاف تحفظات ہیں اور منشور میں بھی واضح فرق ہے۔‘

پی ٹی آئی میں حالیہ دنوں میں ایک فارورڈ بلاک تشکیل دیا گیا، گل بر خان، فضل رحیم، حاجی شاہ بیگ اور سید امجد علی زیدی جس کا حصہ ہیں۔

فضل رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گروپ نے مشترکہ طور پر گل بر خان، جو اس وقت وزیر صحت بھی ہیں، کو وزارت اعلی کے لیے نامزد کیا ہے۔ تاہم اس انتخاب کے حوالے سے ان کا گروپ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے بھی رابطے میں ہے۔

گلگت بلتستان کے اپوزیشن کے سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ روز خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، قمرالزان کائرہ کا اجلاس ہوا جہاں اپوزیشن جماعتوں کے اکٹھے بیٹھنے اور مقامی سطح پر فیصلے کرنے کی تجویز دی گئی۔

پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صدر اور سابق وزیر اعلی خالد خورشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’جو پورے ملک میں ہو رہا ہے وہی اس صوبے میں ہو رہا ہے۔ حالات اس طرح کے نہیں ہیں کہ کچھ دیر بعد کیا ہو۔‘

خالد خورشید نے مصروف ہونے کا عذر پیش کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کے مزید سوالوں کے جواب دینے سے گریز کیا۔ 

تاہم مختلف رپورٹس یہ قیاس آرائی کر رہی ہیں کہ خالد خورشید کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ 

وزارت اعلی کے لیے راجہ اعظم ’متفقہ طور پر‘ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نامزد کیے گئے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے امجد خان جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے محمد انور کو وزیراعلی کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔ 

پی ٹی آئی ترجمان رؤف حسن نے گذشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں’واضح عددی اکثریت کی بنیاد پر‘ راجہ اعظم کو وزیراعلی منتخب کروانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ 

وفاق میں جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومتی اتحاد میں ہیں وہیں گلگت بلتستان میں مل بیٹھنے کو تیار نہیں لگ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا چیلنج مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اتفاق نہ ہونا ہے۔‘

پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک پاکستان گذشتہ دور حکومت میں اتحادی جماعتیں تھیں۔

پی ٹی آئی اس وقت چار گروپس میں تقسیم ہے۔ ’اتحاد بننے کی صورت میں ہی پی ٹی آئی کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اس وقت اتحاد کی کوشش ہو رہی ہے، اگر اتحاد بنتا ہے تو اس صورت میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر پی ٹی آئی کے امیدوار کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

انہوں نے کہا پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنے ہوئے ہیں، اگر یہ گروپ متفق ہوتے ہیں تو اس صورت حال میں نہیں کہا جا سکتا کہ اتحاد کا جھکاؤ کس جانب ہوگا۔

’اس وقت اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا چیلنج مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اتفاق نہ ہونا ہے۔ پہلی جماعت کے پاس تین تو دوسری کے پاس چار نشستیں ہیں۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہی رجحان اعلی قیادت میں بھی پایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا اگر وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے پر راضی ہو جائیں تو چند گھنٹوں میں ہی پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں حکومت بنائے گی۔ یہ تاخیر گذشتہ آٹھ نو ماہ سے ہے۔ 

پی ٹی آئی اراکین سے رابطوں پر پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر نے کہا تشکیل کردہ کمیٹی دوسری جماعتوں سے رابطے میں ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے اراکین بھی ان افراد سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جو پی ٹی آئی کے نام پر رکنیت لینا چاہے۔

گلگت اسمبلی کور کرنے والے صحافی جمیل نگری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ روز صبح کے وقت پولیس کی بھاری نفری اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوئی اور اسمبلی کے عملے اور صحافیوں کو عمارت سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔ 

امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی مدت دوپہر دو بجے تھی جبکہ انتخاب تین بجے ہونا تھا جو حکم امتناع کی وجہ سے نہیں ہو سکا۔ ووٹنگ سے چند گھنٹے قبل ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) فرمان علی کی سربراہی میں پولیس کی بھاری نفری اسمبلی ہال میں داخل ہوئی اور احاطے کو سیل کر دیا جبکہ اراکین کو بھی اسمبلی کی عمارت داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ 

اس صورت حال میں علی خان خٹک کو آئی جی کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے افضل محمود بٹ کو آئی جی تعینات کر دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست