سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پر ہمیشہ سے اعتراض رہا ہے کیوں کہ اس کی تشکیل میں آئین کے مطابق ایسی شقیں شامل کر دی گئی ہیں جس سے اس کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشانات اٹھائے گئے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو دینے کے ساتھ ساتھ لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف اپوزیشن کی خوشنودی کو لازم و ملزوم کر دیا گیا ہے۔
اس سے پیشتر آئین کے آرٹیکل 213 اور 217 کے تحت تقرریاں ہوتی رہیں اور صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان کی رائے کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کمیشن کا تقرر ہوتا رہا۔
اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان حاصر سروس ججز ہوتے تھے جن کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان کی سفارش پر صدر مملکت کرتے تھے اور ان کو برائے نام ہی اعزازیہ دیا جاتا تھا۔
انہیں الیکشن کمیشن کے اجلاس کے لیے مدعو کیا جاتا تھا، اور اگر ان کی کارکردگی سے چیف الیکشن کمشنر مطمئن نہیں ہوتا تھا تو چیف الیکشن کمشنر متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے ان کی خدمات واپس کروا دیتا تھا۔
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 217 کے تحت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان براہ راست کرنے کے مجاز تھے اور ان کا حلف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لیتے رہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر میں سیاسی آلودگی کے عناصر پائے جاتے رہے ہیں۔
اسی دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان جب اہم فیصلے کرتے ہیں تو ان پر اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تقرر کے حالیہ سسٹم کو مدنظر رکھتے ہوئے تقرریوں میں بھی اصلاحات ہونا بہت ضروری ہے اور اس اہم فریضے کو احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے لیے انڈیا، کینیڈا، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کی طرز پر طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میری نظر میں کینیڈا کا طریقہ کار زیادہ جمہوری اور غیر جانبدار ہے، کینیڈا کے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات وزیراعظم کینیڈا کے برابر ہیں اور ملک کے تمام انتظامی ادارے اور پارلیمنٹ کینیڈا کے الیکشن کمشنر کے ماتحت ہیں۔ پارلیمنٹ میں جو کمیشن بنائے جاتے ہیں ان میں کینیڈا کے الیکشن کمشنر کی رائے کو بڑی اہمیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کے الیکشن کمیشن کو کینیڈا کی وحدت اور سالمیت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئندہ کے انتخابات کا روڈمیپ جاری کرتے ہوئے 27 ستمبر کو ابتدائی حلقہ بندیوں کا نوٹی فیکیشن جاری کر کے درست قدم اٹھایا ہے۔
عوام کا حلقہ بندیوں کی تکنیکی بحث سے تعلق نہیں ہے، دراصل اس میں ان اشرافیہ کے نمائندوں کے مفادات پوشیدہ ہیں جنہوں نے الیکشن میں حصہ لینا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی حلقوں میں معمولی ردوبدل کیا ہے جس کے اختیارات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 17 کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 51(5) کے تحت دیے گئے ہیں اور بنیادی طور پر الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 106 کو ہی مدِنظر رکھا ہے۔
جو متعلقہ امیدوار اعتراضات کریں گے، ان کی اپیلوں کا فیصلہ الیکشن کمیٹی کی مکمل سماعت کے بعد کیا جائے گا، اور اعتراضات کا حل نکالا جائے گا۔ دوسری صورت میں عدالتیں موجود ہیں، اسی لیے اعتراضات اور تجاویز کے لیے مناسب مواقع دیے گئے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان روزمرہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا، حلقہ بندیوں کو اوپن رکھا گیا ہے اور ویب سائٹ پر مکمل تفصیل موجود ہے۔
پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں آبادی کی بنیاد پر نشستوں کو زمینی حقائق کے مطابق ردوبدل کیا گیا ہے۔
بعض این جی اوز جو غیرملکی فنڈنگ کے ذریعے اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتی ہیں انہوں نے آبادی کے مساویانہ اصول کو سہارا لیتے ہوئے چند برائے نام اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے ہر حلقے کے لیے نو لاکھ کی آبادی کا فارمولا تھا جسے بعض صورتوں میں برقرار نہیں رکھا گیا۔
اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 51 (5) کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان حلقہ بندیاں کراتے ہوئے صوبوں کے اندر اور بعض اضلاع کے مابین ہی سیٹوں کو آبادی کے تناسب میں ردوبدل کرنے کا مجاز ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 51(3) کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کو بڑھانے کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
واضح رہے کہ جون 2017 کی مردم شماری کے آخری نتائج کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مارچ 2018 میں پنجاب کی نشستیں کم کر کے 148 کے بجائے 141 کر دی تھیں اور سات نشستوں میں سے کچھ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کو تفویض کر دی گئی تھیں۔
پارلیمنٹ نے آئین میں 25 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کر کے قومی اسمبلی کی نشستوں کا تعین کر دیا تھا اور فاٹا کی 12 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے چھ نشستیں خیبر پختونخوا کو الاٹ کر کے بقیہ چھ نشستیں ختم کر دی تھیں۔
اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی 272 کی نشستوں کے بجائے 266 نشستیں کر دی گئی تھیں اور 25ویں آئینی ترمیم میں یہ طے پایا تھا کہ 266 نشستوں کا اطلاق 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد مستقبل میں حکومت کی تشکیل میں اپنایا جائے گا، لہٰذا 27 ستمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جو ابتدائی حلقہ بندیوں کا خاکہ جاری کیا ہے وہ جنوری 2021 کے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلہ کے عین مطابق ہے۔
اس وقت اہم فیصلہ ہوا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے نتائج اور پھر حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے، لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی روح کے مطابق اور مردم شماری کے آخری نتائج کے فارمولے کے مطابق حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں۔
جہاں تک حلقہ میں آبادی کا تناسب ہے تو اس سلسلے میں انڈیا کی مثال سامنے رکھی جائے تو حیرت انگیز معلومات سامنے آتی ہیں۔ انڈیا میں ایوانِ زیریں کی نشستیں 568 ہیں جو 75 سال سے اسی تناسب پر ہیں اور مردم شماری کا سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے جس کی کوئی مقررہ مدت نہیں ہے۔
ہر حلقہ 36 لاکھ ووٹروں پر محیط ہے کیونکہ نشستیں 568 سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔
اسی طرح امریکہ میں سینیٹ کا الیکشن براہ راست ہوتا ہے، لہٰذا سینیٹ کا حلقہ 15 لاکھ پر محیط ہے۔ پاکستان میں 266 نشستوں کو فارمولے کے مطابق کم سے کم حلقہ چار لاکھ اور زیادہ سے زیادہ نو لاکھ پر محیط ہے اور بعض جگہوں پر 11 لاکھ بھی ہے اور یہی فارمولا ہر جمہوری ممالک میں اپنایا گیا ہے۔
پنجاب کی نگران حکومت نے مقامی حکومت ایکٹ 2022 کے قانون میں ترمیم کر کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ختم کرنے کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ختم کرنے کی منظوری دی اور اس کی سب سے بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ کو قرار دیا اور کابینہ نے مقامی حکومتی رولز میں ترمیم کے ساتھ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو رولز اور ایکٹ سے حذف کر کے آرڈی ننس جاری کیا جو تین ماہ تک نافذ العمل رہے گا۔
نگران حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آرڈیننس میں مزید توسیع بھی کر سکے گی، جب کہ حقائق یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر نگران حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ اور رولز میں ترمیم کی ہے تاکہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے اور آرٹیکل 141 (A) پر من و عن عمل کرایا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔