38 لاکھ سال پہلے انسان کیسا نظر آتا تھا؟

38 لاکھ سال پرانے یہ فاسل افریقی ملک ایتھیوپیا میں دریافت ہوئے اور 1974 میں دریافت ہونے والے جزوی  ڈھانچے (جس کو لوسی کا نام دیا گیا تھا) کی نسل کے بھی آباواجداد میں سے ہیں۔

2

دریافت ہونے والا چہرہ کسی نر کا ہے، اس کے بیچ کے اور نیچے کے حصے تھوڑے باہر کو نکلے ہیں، جبکہ لوسی کی نسل میں چہرے کے بیچ کا حصہ چپٹا تھا جو موجودہ دور کے انسانوں جیسے چہرے کی طرف ایک قدم تھا۔(سوشل میڈیا)

سائنس دانوں نے زمین پر گھومنے والے سب سے قدیم انسان کے فاسل دریافت کر لیے ہیں جس سے ان کو انسانوں کے ارتقا کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔

38 لاکھ سال پرانے یہ فاسل افریقی ملک ایتھیوپیا میں دریافت ہوئے اور 1974 میں دریافت ہونے والے جزوی  ڈھانچے (جس کو لوسی کا نام دیا گیا تھا) کی نسل کے بھی آباواجداد میں سے ہیں۔

یہ قدیم فاسل Australopithecus نسل  کے سب سے پرانے رکن کے ہیں جو ہماری ہومو (Homo) کہلانے والی نسل سے بھی پہلے دنیا میں پائے جاتے تھے۔

سائنسدانوں کو پہلے سے علم تھا کہ یہ نسل A. anamensis زمین پر تھی اور اس کے سب سے پرانے پائے جانے والے فاسل 42 لاکھ سال پرانے ہیں۔ لیکن اس کے دریافت شدہ فاسلز میں صرف جبڑے اور دانت ہی ملے تھے۔ نئےدریافت ہونے والے فاسل میں کھوپڑی اور چہرے کا کافی حصہ ہے۔

خبر رسان ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، کلیولینڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے یوہانس ہیل سلاسی اور ان کے ساتھیوں نے ان فاسل کے بارے میں جریدے ’نیچر‘ میں بدھ کو لکھا۔

دریافت ہونے والا چہرہ کسی نر کا ہے، اس کے بیچ کے اور نیچے کے حصے تھوڑے باہر کو نکلے ہیں، جبکہ لوسی کی نسل میں چہرے کے بیچ کا حصہ چپٹا تھا جو موجودہ دور کے انسانوں جیسے چہرے کی طرف ایک قدم تھا۔

جریدے کے مطابق یہ فاسل 2016 میں ایک ایسی جگہ دریافت ہوا جو کسی قدیم جھیل کا کنارہ تھی اور جہاں کسی دریا کی ریت جمع تھی۔ جس دور میں یہ جاندار زندہ تھا یہ علاقہ سوکھا تھا اور زیادہ تر چھوٹے پودوں سے گھرا تھا اور درخت کم ہی تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق کی شریک مصنف جرمنی کی میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ فار ایولوشنری اینتھروپالجی کی سٹیفینی میلیلو نے کہا کہ اس سے قبل تحقیق میں یہ پتہ چلا ہے کہ A. anamensis کمر سیدھی رکھ کر چلتے تھے، مگر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ پھتروں سے آلات بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

ماہرین نے اس کام کو سراہا ہے۔

نیو یارک کے لیہمن کالج کے ایریک ڈیلسن نے اس فاسل کو ’خوبصورت‘ قرار دیا اور کہا کہ محققین نے اس فاسل سے چہرے کو ڈیجیٹلی دوبارہ تعمیر کرنے میں بہترین کام کیا تاکہ ارتقا کے درخت پر اس کی جگہ کا تعین کیا جا سکے۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے زیرے المسیگڈ نے کہا: ’اب جو A. anamensis کا چہرہ ہمارے سامنے ہے، ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ کیسے دکھتے تھے اور لوسی کی نسل سے کتنے مختلف تھے۔‘

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ A. anamensis لوسی کی نسل  A. afarensis بنانے کے بعد کم سے کم ایک لاکھ سال اور زمین پر گھومتے رہے۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق