بھارتی شہریت: گرفتاری کے خوف سے آسام کے مسلمان کی خودکشی

آسام میں شہریوں کی رجسٹریشن کل منظر عام پر آ رہی ہے جس سے نسل در نسل آسام  میں بسنے والے افراد کو شہریت چھن جانے کا خوف ہے۔

رحیم علی  کی بیوہ حلیم النسا اپنے بچوں کے ساتھ  گھر کے باہر۔ ان کے شوہر نے ٹرائبیونل میں پیش ہونے سے ایک دن پہلے خودکشی کرلی (اے پی)

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں شہریت ثابت کرنے کی حکومتی دستاویزی مہم کے نتائج کا اعلان کل ہونے جارہا ہے جس سے ہزاروں زیادہ تر مسلم خاندانوں کو شہریت چھن جانے کا خطرہ ہے۔ ایسے میں آسام کے ایک سابق فوجی بھی پریشان ہیں جب کہ ایک مسلمان  شہری نے حراستی کیمپ میں بھیجے جانے کے ڈر سے خود کشی کرلی ہے۔

رحیم علی کی اہلیہ حلیم النسا نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ رحیم کے پانچ بچوں کو ایک ٹرائبیونل کے سامنے پیش ہو کر یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ بھارت میں غیر قانونی طور پر مقیم نہیں  تھے۔ مگر رحیم نے اس سے ایک دن پہلے ہی بنتی پور گاؤں میں اپنی چھوٹی سی جھونپڑی کے باہر پھانسی لے لی۔

حلیم النسا کے مطابق رحیم کو ڈر تھا کہ ان کے بچوں کے نام اس حکومتی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا جو ہفتے کو شائع ہوگی اور جس کے بارے میں حکومتی دعویٰ ہے کہ اس کے بنانے سے دہائیوں سے جاری بے قابو  ترک وطنوں کی بھارت میں آمد کو روکا جائے گا۔

حلیم النسا نے کہا: ’رحیم کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس اس کیس کو لڑنے کے لیے کوئی پیسے نہیں ہیں۔ ان کو ڈر تھا کہ ان کے بچوں کو ان سے چھین لیا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ رحیم بازار گئے اور پھر واپس آ کے خود کو پھانسی دے دی۔

اب وہ خود پریشان ہیں اور نہیں جانتیں کہ اگر ہفتے کو شائع ہونے والی فہرست پر ان کے بچوں کا نام نہیں ہوا تو وہ کیا کریں گی۔

بھارتی حکومت کے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز (این آر سی) بنانے کے اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں لاکھوں  کروڑوں افراد کے نام رہ جائیں گے اور وہ بے وطن ہو جائیں گے۔

تاہم آسام میں بنائی جانے والی اس فہرست کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت سے مکمل حمایت حاصل ہے اور حکومت اس عمل کو پورے ملک میں دہرانے کی خواہشمند ہے۔

اس فہرست میں شامل ہونے کے لیے ایسے افراد جن پر ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے کا شبہ ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شہریت کی دستاویزات دکھائیں۔

ناقدین اس قدم کو ایسے کروڑوں مسلمانوں کو ڈیپورٹ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ تاہم اس منصوبے کے حق میں بولنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد آسام کے  دیسی لوگوں کی ثقافتی شناخت کو بچائے رکھنا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

اس فہرست کا ڈرافٹ جون میں شائع ہوا تھا جس میں آسام کے تین کروڑ بیس لاکھ شہریوں میں سے 41 لاکھ کے نام  شامل نہیں تھے۔ ان میں سے کچھ تو کہیں اور جا کر بس گئے اور کچھ نے اپنی جان لے لی، جیسے رحیم علی نے کیا۔

بھارتی حکومت کا موقف یہ ہے کہ جن افراد کا نام اس فہرست پر نہیں وہ غیر ملکی ہیں اور ان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ غیر ملکی نہیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے ریاست میں سینکٹروں ٹرائبیونلز قائم کی گئی ہیں جن کی صدارت جج نہیں بلکہ عام افراد کریں گے۔

فہرست میں نہ ہونے والے افراد کے پاس ان ٹرائبیونل میں اپیل دائر کرنے اور کورٹ میں اپنا کیس لے جانے کے لیے 120 دن ہیں۔ اگر اپیل جمع نہیں کروائی جاتی تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ٹرائبیونل کو  ان کی شہریت ختم کرنے کی تجویز  دے سکتے ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ جن شہریوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا کیونکہ بھارت کا بنگلہ دیش کے ساتھ ڈیپورٹیشن کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں۔

رواں سال بھارتی سپریم کورٹ نے وفاقی اور آسام کی حکومتوں پر تنقید کی تھی کہ گذشتہ برسوں میں ایسے ہزاروں افراد جنہیں غیر ملکی قرار دیا گیا تھا غائب ہو چکے ہیں۔

کئی برس سے بنگلہ دیش سے مزدور کام کی تلاش میں آسام میں بسنے آتے رہے ہیں جہاں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے بڑے بڑے چائے کے باغات ہیں۔ مگر ان تارکین وطن کے حوالے سے مقامی لوگوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔

شہریوں کی رجسٹری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آسام میں غیر ملکی افراد کی آمد کی وجہ سے انہوں نے مقامی لوگوں سے زیادہ سیاسی اثرو رسوخ قائم کر لیا ہے۔

آسام میں ان افراد کے خلاف  غصہ اور بے یقینی  پائی جاتی ہے۔  

1983 میں ایک ہجوم نے دو ہزار سے زائد بنگالی مسلمونوں کا قتل کردیا تھا، لیکن کبھی کسی پر اس کا مقدمہ درج  نہیں ہوا۔

ماضی میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگلہ دیشی تارکین وطن کو  ’دیمک‘ بھی کہا ہے۔

ایسے لاکھوں افراد جن کی شہریت اب خطرے میں ہے، وہ ہیں جن کے والدین بھی بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔

پاکستان اور  تب کے مشرقی پاکستان سے آنے والے محاجرین کے لیے 1948 کو  بھارت میں داخلے کا آخری سال  قرار دیا گیا تھا، جس کو بعد میں بدل کر 1951 اور پھر 1971 کر دیا گیا، جب بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست بنا۔

ہندوؤں اور آسام کے رہنے والوں سمیت سینکڑوں ایسے بھارتی جو باقاعدہ ووٹر لسٹوں تک میں موجود ہیں، انہیں شہریت نہ ہونے کے شبے میں گرفتاری کے بعد قید کر لیا گیا ہے۔

گوہاتی سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی محمد ثنااللہ کہتے ہیں: ’میں صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ میں  نے 30 برس اس ملک کی خدمت کی ہے اور اب میں بھکاریوں کی طرح کھڑا بھارتی شہریت مانگ رہا ہوں۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے امید ظاہر کی ہے کہ آسام کے رہائشیوں کو رجسٹر کرنے کا یہ عمل پورے بھارت میں یکساں طریقے سے کیا جائے گا، اس کے لیے شناختی کارڈ کا حامل ہونا بنیادی شرط ہو گی۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے ایک ایسا بل پاس ہونے کی اطلاعات بھی ہیں جس کے بعد آس پاس کے ممالک سے غیر قانونی طور پہ آنے والے ہندو، سکھ اور مسیحی افراد کو بھارتی شہریت آسانی سے دی جا سکے گی۔ یہ سہولت بھی مسلمان غیر قانونی مہاجرین کے لیے بہرحال نہیں ہو گی۔

کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے کے بعد مودی حکومت کا ایک ہی مہینے میں مسلمان اکثریتی علاقوں کے خلاف یہ دوسرا قدم ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں کو یہ خوف بھی ہے کہ ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد میں وہاں آباد کاری کے بعد ان کی ثقافت اور اکثریتی پوزیشن بھی اقلیت میں بدل جائے گی۔ اس خدشے کو سوشل میڈیا پر موجود ان بیانات سے بھی تقویت ملتی ہے جن میں کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے پر بار بار پرزور اصرار کیا جا رہا ہے۔ 

جو لوگ آسامیوں کی رجسٹریشن کے اس طریقہ کار کے حق میں ہیں ان کا کہنا ہے کہ آسام اور کشمیر کا تقابل بالکل غلط ہے۔ سموجل بھٹاچاریا جو گوہاتی میں ایک غیرقانونی مہاجرت کے خلاف ایک عرصے سے مہم چلا رہے ہیں ان کے مطابق یہ پروپیگنڈا بنگلہ دیش کے حامیوں کی جانب سے پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمان اس رجسٹریشن کا ٹارگٹ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’وہ یہ بات مشہور کر رہے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ہم ان سے پوچھنا چاہیں گے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کون کر رہا ہے؟ ہماری اپنی آبائی زمین پر ہمارے حقوق یہاں موجود غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں۔‘

2010 میں بھارتی حکومت نے بارپتا کا علاقہ رجسٹریشن اور ووٹر لسٹیں بنانے کے لیے ابتدائی طور پر چنا تھا۔ یہ علاقہ بھی آسام کے نو مسلم اکثریتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ 

جب اس فیصلے کے خلاف اس علاقے کے ایک دوردراز گاؤں کھانڈکر پارا میں احتجاج ہوا تو پولیس کی فائرنگ سے چار مظاہرین ہلاک ہو گئے جن میں 25 سالہ میدل ملاح بھی شامل تھے۔ ان کی قبر 1916 میں بنی ایک مسجد کے عقب میں ہے۔ 

ان مظاہروں میں ہلاک ہونے والے ایک اور شخص ماجم علی تھے۔ ان کی ان پڑھ بیوہ نور بیگم  نے ہمسایوں کی مدد سے اپنے آدھی صدی پرانے کاغذات شہریت جمع کروائے جن میں ان کے دادا کا 1951 میں بھارتی شہریتی رجسٹر میں اندراج بھی شامل تھا اور ان کے ٹیکس جمع کروانے کے کاغذات بھی شامل تھے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا: ’میرے شوہر نے اس این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کے لیے قربانی دی، اس کا فائدہ تبھی ہو گا جب اس رجسٹر میں موجود ہر ایک فرد کی بھارتی شہریت برقرار رکھی جائے۔‘

منجوری بھومک ایک 51 سالہ ہندو خاتون ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ ان کے دونوں بیٹوں کا کیا بنے گا اگر انہیں غیر ملکی قرار دے دیا گیا۔

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی بھومک 1991 میں اپنے شوہر سے شادی کرنے کے بعد بھارت میں آباد ہوئی تھیں۔ انہیں ماضی قریب میں ایک نوٹس ملا کہ وہ ایک ’ڈی ووٹر‘ یا مشکوک شہریت کی حامل ہیں۔ تب سے ان کا اور ان کے بچوں کا سٹیٹس مستقل خطرے کا شکار ہے۔

کللکتہ یونیورسٹی سے لی گئی اپنی ڈگری، اپنا بھارتی شناختی کارڈ اور اپنے بھائی کی طرف سے بھیجا گیا ایک ضمانتی خط بھارتی سرکار میں جمع کروانے کے باوجود وہ بارپتا میں تارکین وطن کی عدالت کے باہر بیٹھی اپنی باری آنے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ اپنی بھارتی شہریت مزید ثابت کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا: ’لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ سب بہت زیادہ ذہنی اذیت کا باعث بن چکا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا