12 سالہ دلہن: سندھ میں کمسن شادیاں آج بھی کیوں جاری ہیں؟

شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کی پروفیسر ڈاکٹر نادیہ آغا کے مطابق سندھ میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے بہتر قوانین کی موجودگی کے باجود ایسے واقعات ہونے کے کی کئی وجوہات ہیں۔  

 

سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔  

سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی کی صورت میں دو سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے، جبکہ قانون کی خلاف ورزی میں معاونت کرنے والے کو بھی دو سال قید کی سزا قید ہو سکتی ہے۔ (پکسابے)

صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں گذشتہ شب پولیس نے کمسن بچی کی بڑی عمر کے شخص کے ساتھ شادی کی اطلاع پر چھاپہ مار کر دلہن کے والد اور دولہے کو گرفتار کر لیا۔

لاڑکانہ ویمن پولیس سٹیشن کی ہاؤس سٹیشن آفیسر (ایس ایچ او) غلام فاطمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کے دلہن کے والد اشرف کلہوڑو اور دولہا اشرف مشوری کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، جبکہ نکاح خواں مولوی عبداللہ موقعے سے فرار ہو گئے۔  

پولیس کے مطابق لاڑکانہ شہر کے نظر محلہ سے تعلق رکھنے والی دلہن نسیم کلہوڑو کی عمر 12 سال جبکہ دولہا اشرف مشوری 30 سال کا تھا۔  

ایس ایچ او غلام فاطمہ نے بتایا کہ کمشن بچی کے والدین نے اپنی بیٹی کے لیے اشرف مشوری کا رشتہ رقم کی لین دین کے باعث قبول کیا۔ 

’بچی کے والدین نے دولہا کے خاندان کو رقم ادا کرنا تھی، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے اور پیسوں کے بدلے نوعمر بچی کا رشتہ دے کر معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی۔‘ 

سندھ چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 2013 کے تحت 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔  

چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ کی خلاف ورزی کی صورت میں دو سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے، جبکہ قانون کی خلاف ورزی میں معاونت کرنے والے افراد کو بھی دو سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ 

’قوانین کی موجودگی میں کم عمری کی شادیاں نہیں روکی جا سکتیں‘

برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک سے ویمن سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کی پروفیسر ڈاکٹر نادیہ آغا کے مطابق سندھ میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے بہتر قوانین کے باجود ایسے واقعات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔  

ڈاکٹر نادیہ آغا کے مطابق: ’کم عمر بچوں کی شادی کے لاتعداد کیسز ہیں، مگر صرف چند ہی رپورٹ ہو پاتے ہیں۔ جب پولیس کسی کیس میں کارروائی کرتی ہے تو وہ میڈیا میں ہائی لائٹ ہوتا ہے، ورنہ ایسے کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں اکثریت والدین نے کم عمری کی شادی کو قبول کر لیا ہے۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نادیہ آغا نے غربت اور ریاست کی جانب سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کو ایسے واقعات کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔

’ایک طرف روز مرہ کی اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ آبادی بھی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ دیہات میں ایک گھر میں عام طور پر 10 افراد ہیں۔ ان کی روزمرہ کی خوراک مہیا کرنا بھی مشکل کام ہے۔‘  

بقول ڈاکٹر نادیہ آغا کے ریاستی تحفظ کی عدم موجودگی میں لوگ خاندان میں شادی کرانا، وٹہ سٹہ (شادی کے لیے لڑکی کے بدلے لڑکی کا رشتہ دینا) یا کم عمری کی شادی کے ذریعے کسی حد تک خود کو معاشرتی طور پر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ 

’ایسے اکثر واقعات میں عمر کا بڑا فرق ہوتا ہے۔ اکثر لڑکی 12 یا 13 سال کی اور دولہا 50 سال کی عمر سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ آبادی اور مہنگائی میں اضافے کے باعث کم عمر لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔‘ 

ڈاکٹر نادیہ آغا کا کہنا تھا کہ قوانین پر عمل درآمد کروا کر ہی معاشرے میں ایسی لعنتوں پا قابو پایا اور قوانین کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ’صرف قانون بنا لینے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے خیال میں کم سن عمر کی شادیوں کے واقعات اس وقت تک نہیں رک سکتے جب تک لوگوں کو ان کے نقصانات سے متعلق آگاہی نہ دی جائے۔ ’لوگوں کو بتائیں کہ ایسا کرنا نہ صرف جرم ہے بلکہ اس سے بچوں اور بچیوں کی صحت اورتعلیم تباہ ہوتے ہیں۔‘   

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست کو سماجی تحفظ مہیا کرنے کے علاوہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے خاندانوں کو روزگار مہیا کرنا چاہیے تاکہ ایسی سماجی برائیوں کی روک تھام ہو سکے۔ 

ڈاکٹر نادیہ آغا کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کے بعض حصوں میں خاندانی لڑائی یا چوری اور دیگر تنازعات کے حل کے لیے گھر کی لڑکی یا خاتون کو مخالف فریق کے خاندان میں بیاہ دینے کی رسم بھی موجود ہے، جسے سندھی زبان میں ’سنگ چٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  

ان کے مطابق: ’کسی خاندان یا خاندان کے مرد پر کوئی جرمانہ ہونے کی صورت میں گھر کی سب سے قیمتی چیز بیچ کر جرمانہ ادا کیا جاتا ہے اور نہ ملنے کی سورت میں جرمانے کے بجائے کمسن لڑکی کی شادی مخالف فریق کے خاندان میں کر دی جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر