گابی ماتوس بالکل ایک شفقت بھری ماں دکھائی دیتی ہیں، جب وہ روی کا ڈائپر تبدیل کرتی ہیں اور نرمی سے اسے تھپکتی ہیں۔
لیکن یہ برازیلی ’نوزائیدہ‘ بچہ اپنے ڈائپر کی تبدیلی پر بالکل پریشان نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں کوئی حقیقی جذبات ہی نہیں۔
روی دراصل حقیقت کے انتہائی قریب تر ایک گڑیا ہے، جو کسی اصل نوزائیدہ بچے سے حیران کن حد تک مشابہت رکھتی ہے۔
ان ’ری بورن‘ کہلانے والی گڑیاؤں میں سے بعض روتی ہیں، منہ میں چوسنی لیتی ہیں اور ان کے ناخن، پلکیں اور رگیں بھی ہوتی ہیں۔
اور جو چیز انہیں روایتی گڑیاؤں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کے جھریوں والے خدوخال اور غیر یکساں جلد ہے۔
کسی بھی انسان کو ریو ڈی جنیرو کی گلیوں میں سٹرولر میں لیٹے اس بچے کو حقیقی نوزائیدہ بچہ سمجھنے کی غلطی ہو سکتی ہے۔
امریکہ میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں متعارف کروائی جانے والے ان نقلی بچوں، جو بنیادی طور پر بالغ افراد کے لیے تیار کیے گئے، کی گذشتہ چند برسوں میں جنوبی امریکی ملک برازیل میں تیزی سے ڈیمانڈ بڑھی ہے۔
روی کی 21 سالہ ’ماں‘ گابی ماتوس نے کہا: ’مجھے بچپن سے ہی بچے اور گڑیاں بہت پسند تھیں۔ جب میں نے ان دلکش ماڈلز کو دریافت کیا تو فوراً ان سے محبت ہوگئی۔‘
یہ گڑیاں سلیکون یا وینائل میٹریل سے بنائی جاتی ہیں اور ان کی قیمت ہزاروں ڈالر تک جا سکتی ہے۔
ماتوس، جو جنوب مشرقی انڈین شہر کیمپیناس میں رہتی ہیں، نے اپنی پہلی ’ری بورن‘ گڑیا نو سال کی عمر میں حاصل کی۔
اب ان کے پاس ایسی 22 گڑیائیں ہیں اور ان ننھے بچوں کی دیکھ بھال ان کی ایک کُل وقتی مصروفیت ہے، جسے وہ اپنے 13 لاکھ یوٹیوب فالوورز کے لیے روزانہ انجام دیتی ہیں۔
لیکن گذشتہ چند ہفتے سے ان کی پوسٹس پر تعریفی تبصروں کے ساتھ ساتھ تنقیدی حملے بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گابی ماتوس کے مطابق: ’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے نفسیاتی ہسپتال میں داخل کروا دینا چاہیے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم ان گڑیاؤں کے ساتھ ویسا سلوک کرتے ہیں جیسے وہ حقیقی بچے ہوں، حالاں کہ ایسا نہیں۔ یہ افسوسناک ہے۔‘
اپریل میں جب یہ گڑیائیں جمع کرنے والوں کا ایک گروپ ساؤ پاؤلو کے ایک پارک میں جمع ہوا تو یہ گڑیاں عوامی بحث کا حصہ بن گئیں۔ اس تقریب کی ویڈیو وائرل ہو گئی، ساتھ ہی ایک اور الگ ویڈیو بھی مقبول ہوئی جس میں ایک ’ری بورن‘ گڑیا کی ’پیدائش‘ دکھائی گئی۔ ایک انفلوئنسر ایک بے ترتیب گڑیا کو سیال سے بھرے بیگ سے نکالتی ہے، جیسے ماں کا پیٹ ہو اور پھر ایک فرضی آنول کاٹتی ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ مناظر زبردست ردعمل کا باعث بنے۔ کچھ نے ایسی ’ماؤں‘ کے طرزِ عمل کو پاگل پن قرار دیا، تو کچھ نے اسے ایک بے ضرر مشغلہ کہا۔
اداکارہ لوانا پیووانی نے انسٹاگرام پر لکھا: ’انہیں ری بورن بچوں کی پرورش کرنے دیں، اگر یہ بچے پیدا کریں تو وہ کہیں زیادہ خطرناک ہوگا۔‘ ان کی یہ پوسٹ ہزاروں بار دیکھی گئی۔
الانا جینیروسو، جو طویل عرصے سے ری بورن گڑیاؤں کی شوقین ہیں اور اب اپنی گڑیا کی دکان کی مالک ہیں، کا اصرار کہ ان کے گاہکوں کا ذہنی توازن بالکل ٹھیک ہے۔
46 سالہ الانا، جو تین حقیقی بچوں کی ماں بھی ہیں، کہتی ہیں کہ ’بہت سے بچے یہاں آتے ہیں اور ایسے بالغ افراد بھی جو نارمل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔‘
کیمپیناس میں الانا بےبیز میٹرنٹی ہسپتال کو ایک حقیقی زچگی وارڈ جیسا بنایا گیا ہے۔
نئی گڑیا اس کے مالک کو دینے سے پہلے، سفید کوٹ پہنے ملازمین اسے انکیوبیٹر سے نکالتے ہیں، وزن کرتے ہیں، سٹرولر میں رکھتے ہیں اور ’والدین‘ کو پیدائش کا سرٹیفیکیٹ پیش کرتے ہیں۔
جینیروسو کے مطابق: ’یہاں آپ ایک عام گڑیا نہیں خرید رہے، بلکہ ایک خواب خرید رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سوال کا جواب کہ کیا کچھ لوگ ان گڑیاؤں کی ویسے ہی دیکھ بھال کرتے ہیں جیسے وہ حقیقی بچے ہوں؟ ہاں میں ہے، لیکن وہ اکثریت میں نہیں ہیں۔‘
یہ بحث اب کانگریس تک بھی جا پہنچی ہے۔
کچھ اراکین پارلیمنٹ کا مطالبہ ہے کہ ’ری بورن‘ ماؤں کو نفسیاتی مدد فراہم کی جائے جب کہ دیگر ان افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر اپنے ’بچوں‘ کا سہارا لے کر عوامی سہولیات میں قطاریں توڑتی ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایک رکن پارلیمنٹ اپنی ری بورن ’پوتی‘ کو پارلیمنٹ میں لے آئے۔
پادری مانویل ایسی ڈوریو نے کہا کہ گڑیوں سے کھیلنا ’کوئی گناہ نہیں۔‘
ماہر نفسیات ویوین کنہا کے مطابق گڑیاں جمع کرنا ایک مشغلہ ہے اور جب تک یہ مشغلہ ’سماجی، جذباتی یا مالی نقصان‘ کا باعث نہ بنے، اسے نفسیاتی خرابی نہیں کہا جا سکتا۔
تاہم انہوں نے کہا: ’اگر مثال کے طور پر، کوئی شخص کام پر اس لیے نہ جائے کہ ’بچے کو بخار ہے‘ اور وہ اسے حقیقت بھی سمجھے، تو پھر اس فرد کو پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت ہے۔‘
ویوین کنہا نے ری بورن گڑیا کے جنون کو دنیا بھر میں بڑھتی تنہائی کی وبا سے جوڑا، جسے عالمی ادارۂ صحت نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران سماجی فاصلے سے منسلک کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ گڑیا جذباتی تعلق یا ربط تلاش کرنے کی کوشش سے جنم لیتی ہے۔‘
ماتوس کی دلیل ہے کہ گڑیوں پر تنقید وجود رکھتی ہے۔
’بالغ مردوں کے مشغلے جیسے ویڈیو گیمز کھیلنا، پتنگ اڑانا، فٹ بال کھیلنا، ان سب کو معمول سمجھا جاتا ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ان کاموں کے لیے وہ بڑے ہو چکے ہیں، لیکن خواتین اگر اپنی گڑیاؤں کی دیکھ بھال کریں تو لوگ فوراً سمجھتے ہیں کہ ہم بیمار ہیں۔‘