ڈراما ’مائی ری‘ کم عمری کی شادی کے حق میں یا خلاف؟ بحث جاری

سوشل میڈیا صارفین اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا یہ ڈراما کم عمری کی شادی کے خلاف بنایا گیا ہے یا اس کے حق میں؟

ڈراما ’مائی ری‘ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر نشر کیا جا رہا  ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل/ فیس بک)

’عینی تم بہت خوش قسمت ہو کہ تمھیں اتنا اچھا شوہر ملا‘۔ یہ مکالمہ تھا اے آر وائی پر نشر کیے جانے والے ڈراما سیریل ’مائی ری‘ کی مرکزی کردار عینی کی سکول ٹیچر کا۔ عینی صرف 14 سال کی ہیں اور ان کی شادی ان کے 16 سالہ کزن فاخر سے زبردستی کروا دی جاتی ہے۔

اس ڈرامے کو ثنا فہد نے لکھا ہے جبکہ میثم نقوی نے اس کی ہدایت کاری کی ہے۔ جب ڈرامے کا پرومو جاری کیا گیا تھا تو اس سے لگا کہ کم عمری کی شادی کے خلاف ایک جاندار ڈراما دیکھنے کو ملے گا۔

تاہم سوشل میڈیا صارفین اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا یہ ڈراما کم عمری کی شادی کے خلاف بنایا گیا ہے یا اس کے حق میں؟ کیونکہ ڈرامے میں کم عمری کے باوجود دونوں کرداروں کو سمجھداری سے ازدواجی زندگی گزارتے دکھایا گیا ہے۔

فیملی کی سیاست میں ان میاں بیوی کو ایک سمجھدار سلجھے ہوئے رشتے میں دکھایا گیا ہے، جو ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں، ساتھ دے رہے ہیں۔ 16 سالہ فاخر ایک اچھے انسان اور شوہر ہونے کے ناطے اپنی بیوی کو پڑھنے کی اجازت دے رہا ہے اور بیوی کی ذمہ داری لے رہا ہے۔

تو جہاں اس ڈرامے نے کم عمری کی شادی کو ایک ’ظلم‘ کے طور پر پیش کرنا تھا، وہیں اگر دیکھنے والے غلط کو صحیح سمجھنے لگ جائیں تو غلطی پر کون ہوا؟ ہم ناظرین، ڈراما لکھنے والا یا بنانے والا؟

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر صوفی نامی ایک صارف نے مائی ری کی ٹیم سے سوال کرتے ہوئے لکھا کہ ’واضح کریں کہ آپ اس شو سے کس چیز کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناظرین کا خیال ہے کہ اس کا مقصد کم عمری کی شادی کو سراہنا ہے۔ میرے جیسے لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ سچ ہے؟ اگر ایسا ہے تو واضح کریں، تاکہ میں خود بائیکاٹ کی تحریک شروع کر سکوں۔‘

جبکہ ایک اور صارف نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا کوئی اس ڈرامے کا اصل مقصد بتائے گا؟ کیونکہ کہانی سے بچوں کی شادی آئیڈیل نظر آرہی ہے۔‘

دیجا نامی صارف نے ڈرامے کی کہانی پر سخت ردعمل دیتے ہوئے پوسٹ کی کہ ’مصنف نے بہت ہی غلط طریقے سے کم عمری کی شادی کو دکھایا ہے۔‘

ایک اور صارف نے اس کا موازنہ 2008  میں نشر کیے جانے والے انڈین ڈرامے ’بالیکا ودھو‘ سے کیا جس میں بھی کم عمری کی شادی دکھائی گئی تھی۔

’ایک دہائی پہلے نشر کیے جانے والے انڈین ڈرامے کے بنانے والوں میں اتنی حساسیت تھی جو آج نہیں ہے، اس ڈرامے میں آنندی اور جگیا کو جب وہ بڑے ہو رہے تھے اسی ڈر سے انہیں پانچ سال کے لیے الگ کر دیا گیا تھا لیکن ’مائے ری‘ میں نہیں۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو نے اس حساس موضوع پر بننے والے ڈرامے پر پاکستان کے نامور اداکاروں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔

اس حوالے سے نادیہ جمیل جو بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں کا کہنا تھا کہ ’مائی ری ڈراما سیریل میں کم عمری کی شادی کو منفی انداز میں ہی دکھایا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ قسط میں جہاں عینی کو حاملہ دکھایا گیا وہاں ڈاکٹر کا کم عمری کی شادی پر ردعمل بہت جاندار تھا۔ کہانی میں آگے دیکھنا ہو گا کہ کیا ہوتا ہے اور میں اس پر نظر رکھے ہوئی ہوں۔ میں اس بات پر متفق ہوں کہ لکھاری کو اپنی کہانی کو ذمہ داری سے دکھانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح اداکارہ ثانیہ سعید کہتی ہیں کہ ’ہمارے لکھاری بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ اس لیے انہیں یہ بہت رومانوی لگتا ہے کہ چھوٹی عمر میں شادی ہو جائے اور پھر میاں بیوی کے درمیان پیار اور ہم آہنگی پیدا ہو۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ارینج میرج بری نہیں ہے، لیکن مرضی کے بغیر کسی کی بھی شادی کرنا اور یہ دکھانا کہ بعد میں میاں بیوی میں پیار محبت اور دوستی ہو جاتی ہے۔ غلط ہے اور ایسے کئی ڈرامے بنائے گئے ہیں۔‘

ثانیہ سعید نے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کی سینسر شپ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن ڈراموں کے لیے ان کے پاس پوری کمیٹی تھی، جو یہ دیکھتی تھی کہ کیا جو نکتہ نظر اس ڈرامے سے دکھایا جا رہا ہے وہ نشر ہونا چاہیے؟ لیکن اب چینلز کے پاس کوئی اخلاقی فلٹر نہیں ہے۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو نے ڈرامے کے پروڈیوسر سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی