کشمیر پر نئی اشتہار بازیوں کا راز کیا بھارت کی بوکھلاہٹ ہے؟

حال ہی میں جاری کیے گئے ایک بھارتی اشتہار میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور گیا ہے۔ عالمی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اس اشتہار میں معاشی سبز باغوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے۔

لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کشمیر کے حق میں مظاہرے کے دوران اچھی خاصی توڑ پھوڑ کی گئی جو پندرہ اگست کے بعد بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ مسلسل دوسری مرتبہ ہونے والا واقعہ تھا۔(ٹوئٹر بھارتی ہائی کمیشن)

کشمیر میں آرٹیکل 370 اے ہٹانے کے بعد بھارت کو عالمی سطح پر سخت خفت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کا ردعمل ہر پلیٹ فارم پر اس کے لیے نت نئی مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔ اس امر کا اندازہ بھارتی ہائی کمشن کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے اس اشتہار نامی بیان سے بھی ہوتا ہے۔

حال ہی میں جاری کیے گئے اس اشتہار میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور گیا ہے۔ عالمی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اس اشتہار میں معاشی سبز باغوں کی کثرت دکھائی دیتی ہے۔ نئے کارخانے بنیں گے، انویسٹر آئیں گے، بڑے تعلیمی ادارے بنائے جائیں گے، صحت کے میدان میں انقلابی اقدامات کیے جائیں گے، زراعت کا نقشہ بدل دیا جائے گا، سیاحت کو فروغ ملے گا سمیت کئی ایسے دعوے موجود ہیں جو بھارت کی حکومتیں عموما الیکشن کے دنوں میں اپنے مینیفیسٹو کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی سینیٹ کے نمائندہ وفد نے کل عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر بھرپور طریقے سے بات کی۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وفد کو مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس میں سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف کے کشمیر سے متعلق خطاب میں بھارتی مندوبین کو شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بار بار پاکستانی مندوب کے خطاب میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

بیرسٹر سیف نے خطاب جاری رکھتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایشیائی ممالک کی پارلیمانوں کو اس سلسلے میں ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا کیونکہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور اقتصادی و معاشی مسائل ہم سب کے مشترکہ ہیں اور ان مسائل کو شکست دینے کیلئے ہمیں اکٹھا ہونا پڑے گا۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بھارتی افواج کی جانب سے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے اور عالمی برادری خاص طور پر ایشیائی قیادت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہوگا۔

اس سے پہلے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کشمیر کے حق میں مظاہرے کے دوران اچھی خاصی توڑ پھوڑ کی گئی جو پندرہ اگست کے بعد بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ مسلسل دوسری مرتبہ ہونے والا واقعہ تھا۔  ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ہائی کمیشن نے ٹوئٹر پر لکھا،’آج 3 ستمبر 2019 کو لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر ایک اور تشدد آمیز مظاہرہ ہوا۔ اس سے احاطہ میں توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ ‘

 یہ مظاہرہ برطانوی کشمیری تنظیموں  کے ممبروں نے کشمیر فریڈم مارچ کے نام سے کیا۔ مظاہرین برطانیہ کے کچھ اراکین پارلیمان کی رہنمائی میں پارلیمنٹ سکوائر ڈاؤننگ سٹریٹ سے ہائی کمیشن کی عمارت تک گئے۔  انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور خالصتان کے پرچموں سمیت پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومنک راب نے بھی مظاہرے کا نوٹس لیا اور کہا کہ ’کوئی بھی تشدد قابل مذمت ہے۔ کسی خصوصی کمیونٹی کے خلاف اس ملک میں یا کہیں بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی کشمیر ی عوام  اور ہندوستان-پاکستان کے درمیان بات چیت کو فروغ دینا چاہیے۔‘

اس سارے معاملے کے بارے میں لندن کے رہائشی قانون دان اور صحافی انعام رانا کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’لندن میں کشمیریوں، پاکستانیوں حتی کہ ہندوتوا کے مخالف بھارتی مظاہرین کی جانب سے مسلسل احتجاج کی شدت نے بھارتی حکومت کو بوکھلا دیا ہے۔ اس معاملے میں تیزی اس وقت آئی ہے جب بالخصوص اپنے ووٹروں کے دباؤ کی وجہ سے بھارتی پارلیمنٹ میں بھی ان تمام زیادتیوں پہ سوالات اٹھانے جانے لگے ہیں۔ بہت سے ایشیائی اور خلیجی ممالک کے برعکس انگلستان میں مظاہرین کی آواز کو حکمران جماعتوں کی ملی بھگت سے بین الاقوامی طور پر دبانا ممکن نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بھارتی سفارتخانے نے مظلوم بنتے ہوئے مظاہرین کے خلاف ٹویٹس شروع کر دی ہیں تاکہ انہیں متشدد قرار دے کر کسی طور احتجاج روکنے کی تدبیر کی جا سکے۔‘

’دوسری جانب چونکہ بڑے احتجاجی اجتماعات نے برطانوی عوام، سیاستدانوں اور دانشوروں کو بھی کشمیر مسئلے کی طرف متوجہ کر لیا ہے اس لیے کشمیر میں آرٹیکل 370 اے کی منسوخی کے متعلق فورا گمراہ کن پروپیگنڈا پھیلا کر بھارتی حکومت یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ کشمیر کی فلاح اور کشمیریوں کی ترقی کے لیے اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ البتہ ایک ماہ سے کشمیریوں کو محبور کر کے، وہاں کرفیو لگا کر، اس ترقی پر خوشی منانے سے کیوں روکا جا رہا ہے، بھارتی حکومت اور لندن میں بھارتی سفارتخانہ یہ بتانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل