کچھ سیاسی باتیں

سچ یہ ہے کہ آج جب متوقع انتخابات میں فقط دو ماہ رہ گئے ہیں، سیاسی منظر نامہ ٹھنڈا نظر آ رہا ہے۔

لاہور میں ایک بزرگ شہری 25 جولائی، 2018 کو ہونے والے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے انگوٹھے پر لگے سیاہی کا نشان دکھا رہا ہے (اے ایف پی/ عارف علی)

شنید ہے کہ انتخابات ہوں گے، ضروری انجینیئرنگ بھی ہو چکی، جس جس کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنا تھا کیا جا چکا، جو بچے ہیں ان کو بھی جلد شفایابی ہو گی۔

لاعلاج لوگ سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ خود ساختہ جلاوطنی کی ذرا بہتر شکل ہے۔

پیشہ ور سیاسی تجزیہ کار تذبذب میں ہیں اور دونوں صورتوں کے بارے میں پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ جو بھی صورت کامیاب ہو گی اسی تجزیے کا تذکرہ کر دیا جائے گا کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا۔

مگر سچ یہ ہے کہ آج جب متوقع انتخابات میں فقط دو ماہ رہ گئے ہیں، سیاسی منظر نامہ ٹھنڈا نظر آ رہا ہے۔ روز ہی کسی سیاست دان کے تائب ہونے اور کسی گمنام کے سیاسی منظر نامے پہ ابھرنے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایسے میں اگر انتخابات ہوں گے بھی تو جیسے ہوں گے اس سے بہتر ہے کہ نہ ہوں۔

موسم کا حال یوں بھی برا ہے، پنجاب کے بڑے حصے کو سموگ نے پچھاڑ رکھا ہے۔ چھینکتے، کھانستے عوام، زبردستی کی تھوپی سیاسی بیداری سے عاجز ہیں۔

گاہے تصوف کے دورے بھی اسی لیے پڑتے ہیں کہ اس پردے کو ہٹا اور سامنے آ، یا یہ تماشا مٹا یا ہم کو مٹا۔

یہ باتیں ہم جیسے اتنی بار کر چکے ہیں کہ اب لوگ یہ بھی نہیں سننا چاہتے۔ لیکڈ آڈیوز، ویڈیوز، گندے مناظر کی زبانی تصویر کشی، کردار کشی، کرپشن کے الزامات، بھیا سب سے دل اٹھ چکا۔

دنیا بھر میں، آج سے نہیں جب سے انسان نے معاشرے میں رہنا شروع کیا سیاست کا مزاج کچھ ایسا ہی ہے لیکن ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی ’ایسا‘ہو گیا ہے اور اتنا زیادہ ’ایسا‘ ہو گیا ہے کہ اب بالکل ’ویسا‘ لگنے لگا ہے۔

کچھ روز پہلے ایک نوجوان سیاست دان سے ملاقات ہوئی جو ان انتخابات میں حصہ لینے والے ہیں۔ انہیں دیکھ کر وہی ہوا جو اب اکثر ہوتا ہے، پہلے میں ہنسی اور پھر رو پڑی۔

ہنسی اس لیے کہ نوجوان اب بھی سیاست اور جمہوریت سے مایوس نہیں اور روئی اس لیے کہ نہ یہ سدا جوان رہیں گے اور نہ ہی اس نظام کا بال بھی بیکا کر سکیں گے۔'

ہو گا صرف اتنا کہ یہ کالے بال سرمئی پڑ جائیں گے اور چمکتی آنکھوں میں امید کی جگہ مایوسی آجائے گی۔

اتنی منفی سوچ کے بعد ایک خیال آیا کہ منظر نامہ جتنا بھی تاریک ہے، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کرن تو ہے۔ جو بھی ہو رہا ہے اس کے درمیان کچھ سچے لوگ تو ہیں۔

چاہے دکھاوے کے انتخابات ہوں لیکن یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ووٹ کی طاقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تو صاحبو! ہمارا الل ٹپ تجزیہ بھی سن لیجیے، انتخابات ہوں گے، چاہے جیسے بھی ہوں، جب بھی ہوں، اگر ہر طرف جھرلو بھی پھر جائے گا،  انجینیئرنگ بھی ہو جائے گی تب بھی عوام سے ووٹ ڈالنے کا حق کوئی نہیں چھین سکتا۔

ساری طاقت کے باوجود ایک عام آدمی کی رائے آج بھی اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے ہموار کرنے کے لیے جانے کیا کیا پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔

اپنے سیاسی شعور کو زندہ رکھیے، آزاد رائے بنائیے، تجزیہ کرنے کی طاقت پیدا کیجیے، تجزیہ کاروں کی باتوں میں نہ آئیے ان کی اپنی مجبوری ہے۔

ووٹ کی طاقت اور عزت بہرحال ہے، پاکستان کی مڈل کلاس اب اس بات کو بہت حد تک سمجھ چکی ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت نے پرانے ہتھکنڈوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

ہر شخص اپنی بات کر سکتا ہے اور اس کے لیے اسے روایتی میڈیا کی ضرورت نہیں۔

پچھلے دو انتخابات میں بھی سوشل میڈیا موجود تھا مگر اس بار رنگ کچھ اور ہی ہو گا۔ انقلاب اور تبدیلی کے نعرے اپنی کیمیائی ہیئت میں کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ آپ ایک بار انہیں لگا کر بھول نہیں سکتے، ان کی بازگشت کسی نہ کسی صورت آپ کا پیچھا کرتی ہے۔

انقلاب نہ بھی آئیں، ارتقا تو ہوتا ہے۔ پاکستان سیاسی ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ارتقا میں کون کون بندر کی جون سے انسان کی جون میں آتا ہے اور کون بندر کا بندر رہ جاتا ہے۔ ہم بھی دیکھ رہے ہیں، آپ بھی دیکھیے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ