سینکڑوں روہنگیا ہفتوں سمندر میں گزارنے کے بعد انڈونیشیا پہنچ گئے

زندہ بچ جانے والے 34 سالہ شاہد الاسلام نے بتایا کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنا پناہ گزین کیمپ چھوڑ نکلے تھے۔ انہوں نے کہا، ’کشتی ڈوب رہی تھی۔ ہمارے پاس کھانا یا پانی نہیں بچا تھا۔‘

11 دسمبر، 2023 کو باندا آچے آنے والے روہنگیا پناہ گزین ٹرکوں میں سوار ہونے کا انتظار کر رہے ہیں (محی الدین/ اے ایف پی)

سمندر میں کئی ہفتوں تک پھنسے رہنے کے بعد دو کشتیوں میں سوار 300 سے زائد روہنگیا مسلمان اتوار کی صبح انڈونیشیا کے شمالی صوبے آچے پہنچے ہیں۔

ایک کشتی، جو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے سمندر میں تھی اور 135 مسافروں کو لے کر آچے بیزر ریجنسی کے لامریہ گاؤں کے ساحل پر پہنچی۔

زندہ بچ جانے والے 34 سالہ شاہد الاسلام نے بتایا کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنا پناہ گزین کیمپ چھوڑ نکلے تھے۔ انہوں نے کہا، ’کشتی ڈوب رہی تھی۔ ہمارے پاس کھانا یا پانی نہیں بچا تھا۔‘

دوسری کشتی جس میں تقریباً 180 افراد سوار تھے، پیڈی ریجنسی کے بلینگ رایا گاؤں کے ساحل پر لنگر انداز ہوئی۔

یہ تقریباً 27 دنوں سے مناسب رسد کے بغیر بحیرہ انڈمان میں تیرتی رہی۔

زندہ بچ جانے والے 25 سالہ محمود حسین نے بتایا کہ انہوں نے کشتی کے مالک کو بنگلہ دیش سے نکلنے میں مدد کے لیے 40 ہزار ٹکا (363 ڈالر) دیے تھے۔

حسین نے کہا، ’ہم انڈونیشیا آئے ہیں، لیکن اگر دوسرے ممالک ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہم وہاں چاہتے ہیں۔‘

حسین نے تصدیق کی کہ ایک اور کشتی جس میں مزید مہاجرین سوار تھے، اسی وقت بنگلہ دیش سے روانہ ہوئی تھی، لیکن وہ لاپتہ ہے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کو بچانے کے لیے مزید اقدامات نہ کیے گئے تو کشتی میں سوار افراد مر سکتے ہیں۔

اگست 2017 سے اب تک تقریباً 740,000 روہنگیا مسلمان بدھ اکثریتی میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں جا چکے ہیں۔

میانمار کی سکیورٹی فورسز پر اجتماعی عصمت دری، قتل عام اور ہزاروں روہنگیا گھروں کو نذر آتش کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے اور بین الاقوامی عدالتیں اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ آیا ان کے اقدامات نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔

نومبر سے اب تک 1500 سے زائد روہنگیا پناہ گزین کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچ چکے ہیں۔ آچے اترا ضلع اور سبانگ جزیرے کے رہائشیوں نے کچھ کو اترنے نہیں دیا، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

آچے کے بلانگ رایا گاؤں کے سربراہ رجال فطری نے اتوار کو کہا کہ وہ اپنے گاؤں میں پناہ گزین نہیں چاہتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا، ’ہم ساری رات جاگتے رہے تاکہ انہیں لنگر انداز نہ ہونے دیا جا سکے، لیکن رات ڈھائی بجے، وہ پہنچ گئے۔‘

فطری پناہ گزینوں کی منتقلی کے بارے میں بضد اور کہتے تھے، ’وہ یہاں نہیں رہ سکتے۔‘

انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ انڈونیشیا کی حکومت کو شبہ ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک میں داخل ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص آچے میں۔

لوکسیماوے شہر میں پولیس — جہاں روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کے لیے ایک کیمپ ہے، نے آچے کے تین رہائشیوں کو انسانی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

لوکسیوماوے پولیس کے سربراہ ہینکی اسمانتو نے بتایا ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کیمپ سے 30 پناہ گزینوں کو شمالی سماٹرا صوبے کے شہر میڈان اسمگل کرنے کے لیے 115 ڈالر کی رقم لی تھی۔

سمندر ی راستے سے نکلنے والے زیادہ تر پناہ گزین کام کی تلاش میں مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انڈونیشیا، جہاں ملک کی 27 کروڑ آبادی کا تقریباً 90 فیصد مسلمان ہیں، انہیں حراست میں لے رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا