بالاچ بخش ’قتل‘ کیس: سی ٹی ڈی کے خلاف لانگ مارچ کوئٹہ پہنچ گیا

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کے پیش نظر مظاہرین کو کسی صورت کوئٹہ کے ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بلوچستان کے ضلع تربت میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 23 نومبر کو کیے جانے والے متنازعہ آپریشن کے خلاف شروع کیے جانے والا لانگ مارچ کوئٹہ کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔

یہ مارچ مبینہ طور پر آپریشن میں مارے جانے والے بالاچ بخش کے لواحقین، بلوچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی علاقائی تنظیم ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ 

پانچ دسمبر کو تربت سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں حصہ شریک ہیں۔

احتجاجی دھرنے کی سربراہی کرنے والے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ وسیم سفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’ہمارے اس لانگ مارچ کا بنیادی مقصد زیر حراست لاپتہ افراد کے حقوق کے لیے ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سارے لاپتہ افراد کو مقامی عدالتوں میں پیش کر کے ان پر مقدمہ چلایا جائے اور اسی طرح انہیں مقامی پولیس کے حوالے کر کے انہیں منظر عام پر لایا جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ لانگ مارچ صرف بالاچ بلوچ کے لیے نہیں بلکہ ان تمام بلوچ لاپتہ افراد کے لیے ہے جو سالوں پہلے غائب کر دیے گئے تھے اور آج تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ہے۔‘

دوسری جانب بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کے پیش نظر مظاہرین کو کسی صورت کوئٹہ کے ریڈ زون میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس حوالے سے منگل کو کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی میں ملوث افراد کو کسی طور پر کوئی بھی رعایت نہیں دی جائے گی۔ وہ ایک دہشت گرد تھا اور دوران تفتیش انہوں نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا تھا جو ریکارڈ پر ہے اسی لیے سٹیٹ دہشت گردی میں ملوث کسی بھی فرد کو کوئی بھی رعایت نہیں دے گی۔‘

احتجاج میں شریک بالاچ بلوچ کے والد مولا بخش نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا گھر کے ساتھ ہی ایک درزی کے دکان میں کام کرتا تھا۔

مولا بخش نے الزام لگایا ہے کہ ’اکتوبر میں سکیورٹی اہلکار رات کو آئے جب بالاچ بلوچ اپنی والدہ کے ساتھ سو رہا تھا۔ وہ آئے اور بالاچ کو اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے گئے۔ پھر 21 نومبر کو عدالت میں بالاچ بلوچ کی اپنی والدہ اور بہن سے ملاقات بھی ہوئی تھی مگر دو دن بعد بالاچ کی لاش ملی۔‘

زیرحراست بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایس ایچ او اور دیگر عملے کے خلاف ہفتے کو مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جبکہ اس سے پہلے بالاچ بلوچ کے لواحقین کے مطالبے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے اپنی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی ہے۔

تربت سے کوئٹہ پہنچنے والے لانگ مارچ کی سربراہی کرنے والے وسیم سفر کے مطابق ان کا یہ لانگ مارچ کوئٹہ میں کچھ دن گزارنے کے بعد اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان