تربت: پولیس مقابلے میں بلوچ نوجوان کی موت، لواحقین کا دھرنا جاری

سی ٹی ڈی آپریشن کے دوران مارے گئے بالاچ بلوچ کے بھائی بالی بلوچ نے مطالبہ کیا کہ اصل تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے اور جب تک واقعے میں ملوث حکام کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں گرفتار نہیں کیا جاتا، تب تک دھرنا جاری رہے گا۔

24 نومبر کو تربت شہر میں شروع ہونے والے دھرنے میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ساتھ بلوچ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں جیسے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز اور پی ٹی ایم نے بھی شمولیت اختیار کی ہے (علی جان بلوچ)

بلوچستان کے شورش زدہ ضلعے تربت میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی طرف سے 22 اور 23 نومبر کی رات کیے گئے متنازع آپریشن میں مارے گئے بالاچ بلوچ کے اہل خانہ نے واقعے کی عدالتی تحقیقات نہ ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

بالاچ بلوچ کی تربت میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کی تدفین آبائی علاقے کوہ مراد میں کردی گئی ہے۔

اس واقعے کے خلاف گذشتہ سات دن سے دھرنے پر بیٹھے ان کے بھائی بالی بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا دھرنا مطالبات کو عملی جامہ پہچائے جانے تک جاری رہے گا۔

بقول بالی بلوچ: ’ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ اصل تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے اور  عدالت کے حکم کے مطابق جب تک واقعے میں ملوث حکام کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوتی اور ان کو گرفتار نہیں کیا جاتا تب تک ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے پانچ بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے بھائی بالاچ بلوچ کو 29 اکتوبر کو رات کے ایک بجے کالی وردیوں میں ملبوس اہلکار گھر پر چھاپہ مار کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

بالی کے مطابق 20 نومبر کو ان کے بھائی کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کی اطلاع دی گئی تھی اور 21 نومبر کو بالاچ بلوچ کو تربت کی عدالت میں پیش بھی کیا گیا۔

سی ٹی ڈی کے جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق بالاچ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر  اے) کے رکن تھا اور دوران تفتیش انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور دھماکہ خیز مواد کی ترسیل کرتے رہے ہیں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ بالاچ بلوچ نے اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے تربت میں ایک موٹر سائیکل کے ذریعے تخریب کاری کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، جس کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکار نومبر کی 22 اور 23 ویں شب کے دوران بالاچ بلوچ کے ہمراہ متعلقہ جگہ گئے تو عسکریت پسندوں کی طرف سے فائرنگ کے تبادلے میں بالاچ بلوچ اپنے ہی ساتھیوں کی گولی کا نشانہ بنے اور موقعے پر چل بسے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق واقعے میں بالاچ بلوچ کے ساتھ تین اور عسکریت پسند بھی مارے گئے جن کی شناخت سیف اللہ، ودود اور شکور کے نام سے ہوئی۔

بالاچ بلوچ کے وکیل جادان دشتی نے بتایا کہ 21 نومبر کو عدالت میں بالاچ بلوچ کو پیش کرنے کے بعد 10 روز کا ریمانڈ مانگا گیا تھا، جسے عدالت نے منظور کیا مگر ایک دن بعد ہی خبر ملی کہ وہ مقابلے میں مارے گئے۔

جادان بلوچ کے مطابق اس طرح کے واقعات تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ ’عدالت میں پیش کرنے کے بعد اس طرح مشکوک مقابلے میں کسی کا مرنا نہ صرف تشویش کا باعث بنتا ہے بلکہ عدالت کے کردار کو بھی مشکوک بنا رہا ہے اور عوام میں عدالت سے بھروسہ اٹھنے کا باعث بن رہا ہے۔‘

بالاچ بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے تربت میں احتجاجی دھرنے اور ان کے مطالبات کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) تربت حسین بلوچ سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہو سکا، تاہم بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے، جو آنے والے 15 دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کروائی گی۔

24 نومبر کو تربت شہر میں شروع ہونے والے دھرنے میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ساتھ بلوچ اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں جیسے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز اور پی ٹی ایم نے بھی شمولیت اختیار کی ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے بھی 24 نومبر کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں لکھا کہ وہ ماورائے عدالت قتل کی مذمت کرتے ہیں اور ’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر کسی کی جان کا تحفظ یقینی بنائے۔‘

27 نومبر کو تربت میں پہیہ جام اور پورے مکران ڈویژن میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی تھی جبکہ گذشتہ روز (29 نومبر) کو بھی تربت میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور شہر کے شہید محمد فدا چوک پر سینکڑوں مظاہرین نے اپنا دھرنا دن رات جاری رکھا ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان