ینگ ڈاکٹرز کا الٹی میٹم، ہڑتال کے دباؤ میں کوئی بات نہیں ہو گی: نگران وزیر صحت

پنجاب کے نگران وزیرصحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ جب تک سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال جاری ہے تب تک ڈاکٹروں سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔

یکم نومبر، 2019 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر رحیم یار خان کے ایک سرکاری ہسپتال میں ٹرین حادثے کے بعد لائے جانے والے مریضوں کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

پنجاب کے نگران وزیرصحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ جب تک سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال جاری ہے تب تک ڈاکٹروں سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔

پنجاب میں گذشتہ 17 روز سے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں آؤٹ ڈور پیشنٹ ڈپارٹمنٹس (او پی ڈی) بند ہیں۔

ڈاکٹروں کی یہ ہڑتال اس وقت لاہور، راولپنڈی، گجرات اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں جاری ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر شعیب نیازی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے صوبے کی نگراں حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ ہمارے مطالبات پورے کرے ورنہ صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں تمام سروسز بند کر دی جائیں گی۔‘

دوسری جانب نگراں وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے ’جب تک سرکاری ہسپتالوں میں ہڑتال جاری ہے تب تک ان ڈاکٹروں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ یہ ہڑتال ختم کر کے کام نہیں شروع کریں گے تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ ہم ہڑتال کے دباؤمیں آکر ان سے کوئی بات نہیں کریں گے۔‘

ڈاکٹروں کے مطالبات ہیں کیا؟

اس حوالے سے ڈاکٹر شعیب نیازی نے بتایا: ’کچھ ہفتے قبل گجرات میں ہمارے ڈاکٹر ذیشان انور صبح ڈیوٹی پر جاتے ہوئے قتل ہو گئے تھے اور ہڑتال کا سلسلہ وہاں سے شروع ہوا لیکن 14 روز ہڑتال کے باوجود وہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’اس کے علاوہ مختلف ہسپتالوں میں نئی عمارتیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور یہ پرانی عمارتوں کے اوپر ہی نئی تعمیرات کر رہے ہیں۔ سروسز ہسپتال میں بھی یہی ہوا اور پورا بلاک گر گیا اگر وہاں ڈاکٹر اور مریض موجود ہوتے تو کون ذمہ دار ہوتا۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے ان سے کہا کہ پہلے ہسپتالوں میں کینسر اور دل کے دورے کی بنیادی ادویات جو نہیں مل رہی ان کو فوری فراہم کیا جائے اس کے بعد جو بجٹ بچے گا اسے ہسپتالوں کی عمارتی اصلاحات میں لگائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس پر نگراں حکومت نے یہ معاملات کیا حل کرنے تھے الٹا کوٹ خواجہ سعید ہسپتال میں وائے ڈی اے پنجاب کے متحرک ارکان چار ڈاکٹروں کو یہ کہہ کر ڈیوٹی سے معطل کر دیا کہ وہ ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے۔ ‘

’اس پر ہم نے ٹوکن ہڑتال کی اور حکومت سے ملنے کی کوشش کی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب ینگ ڈاکٹروں سے ملنا نہیں چاہتے۔‘

ڈاکٹر شعیب نیازی کا کہنا تھا کہ ’موجودہ وزیراعلیٰ نے ہسپتالوں کی اصلاحات کے نام پرسارے ہسپتال اکھاڑ کر رکھ دیے جس کی وجہ سے ہمارے بیشتر آپریشن تھیٹر، ان ڈورز اور آوٹ ڈورز ویسے ہی بند پڑے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نگراں حکومت پنجاب مختلف حساس اداروں کے ذریعے ہمیں دھمکیاں دلوا رہی ہے کہ اگر ہم نے ہڑتال ختم نہ کی تو ہمارے ڈاکٹروں کو اٹھا لیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق ’ایسا کیا گیا تو سسٹم آٹو پر آجائے گا۔ معاملہ مزید خراب ہوگا کیونکہ جو سروسز ہم دے رہے ہیں ہم وہ بھی بند کر دیں گے۔ بہتر ہے مذاکرات پر آ جائیں مل بیٹھ کر معاملات حل کر لیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا : ’ہم نے 72 گھنٹوں کا الٹی میٹم حکومت کو دیا ہوا کہ ہمارے مطالبات پورے کریں ورنہ ہم سرکاری ہسپتالوں میں سے اپنی تمام سروسز روک دیں گے۔‘

جب ہم نے ڈاکٹر شعیب سے پوچھا کہ جناح ہسپتال میں مریض کو چیک نہ کرنے پر مریض کے لواحقین اور ڈاکٹروں کے بیچ جھگڑا ہوا تو ان کا جواب تھا: ’ہم نے تو ان سے کہا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز تو اپنی خدمات انجام نہیں دے رہے لیکن ہسپتال میں پروفیسر موجود ہیں ایسوسی ایٹس موجود ہیں آپ ان کو جا کر چیک کروا دیں اس پر تھوڑا معاملہ خراب ہوا اور تو تکار کی نوبت آئی۔‘

ڈاکٹر ذیشان انور کے قتل کا معاملہ

پنجاب پولیس کے ایک ترجمان نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈاکٹر ذیشان انورکھاریاں سی ایم ایچ میڈیکل کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے جنہیں نومبر میں سول لائنز پولیس کی حدود میں پرانے جی ٹی روڈ پر واقع ریسکیو 1122 سٹیشن کے قریب دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ صبح کے وقت اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی ٹیم اس سلسلے میں آئی جی پنجاب سے ملاقات کر چکی ہے۔ جبکہ قاتلوں کی تلاش جاری ہے۔‘

تاہم پولیس ترجمان نے اس سے زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

ادھر نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر ہر بات پر ہی ہڑتال کر دیتے ہیں۔ یہ ہڑتال ختم کر کے اپنا کام شروع کریں اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ان کے کیا معاملات ہیں۔‘

ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا: ’مریضوں کا کیا قصور ہے جو اس وقت متاثر ہو رہے ہیں اس وقت ان کی ہڑتال اوپی ڈیز میں ہے جنہیں بند کیا گیا ہے اور ایک سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی میں روزانہ تین سے چار ہزار مریض مختلف امراض کے ساتھ آتے ہیں جو آج کل وہاں تالے دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔‘

او پی ڈی میں کون سے مریض آتے ہیں؟

اس حوالے سے ڈاکٹر شعیب نیازی کا کہنا تھا کہ ’کھانسی، نزلہ، زکام یا وہ مریض جن کی حالت بہت سیریئس نہیں ہوتی اور ان کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یا وہ مریض جن کی بیماریاں لمبے عرصے سے چل رہی ہوتی ہیں جیسے ٹی بی، مرگی، دمے کا مسئلہ، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ کے مریض جو اپنی معمول کی ادویات کھاتے ہیں وہ اپنے فالو اپ چیک اپ کے لیے کہ ہمیں دوائی مزید بڑھانی یا کم تو نہیں کرنی، او پی ڈی میں آتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مریض تشویش ناک حالت میں آتے ہیں تو وہ ان ڈور یا ایمرجنسی میں جاتے ہیں۔ ‘

 انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر جو خود بھی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا حصہ رہ چکے ہیں نے اپنا اور اپنے ہسپتال کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط ہر بتایا کہ ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے دو گروپس تھے جنہیں دو مختلف ڈاکٹر چلا رہے تھے۔ ان میں سے ایک گروپ کے سربراہ برطانیہ چلے گئے تو دونوں گروپ ضم ہو گئے اور اب یہ دوبارہ طاقت ور ہوئے ہیں۔‘

مذکورہ ڈاکٹرکے مطابق: ’گذشتہ تین چار برس یہ ڈاکٹر ہڑتال نہیں کر سکے لیکن اب یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا ہے اور یہ انہیں تیوروں پر واپس آ رہے ہیں جس طرح یہ 2013 اور 2014 میں رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے بھی ان پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔‘

مذکورہ ڈاکٹر کے خیال میں ’ہڑتال ایک یا دو دن کی کر لیتے لیکن اتنے دن تک او پی ڈیز بند کرنا ٹھیک نہیں ہے مریض متاثر ہوتے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں زیدہ تر غریب مریض آتے ہیں اور دودراز کے علاقوں اور مختلف شہروں سے کرایہ جمع کر کے یہاں پہنچتے ہیں اور انہیں آگے سے دیکھنے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا جو کہ ان غریبوں کے ساتھ زیادتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’اگر حکومت نے انہیں ابھی قابو نہ کیا تو کل کو یہی ڈاکٹرز ایڈہاک بھرتیوں میں حصہ مانگیں گے اور دو سے تین لاکھ روپے ایک ایک ڈاکٹر(میڈیکل آفیسر) کو ایڈ ہاک پر بھرتی کرنے کا لیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی سے بھی رابطہ کیا۔

ڈاکٹر سلمان کاظمی کا کہنا تھا: ’اس وقت سب داکٹر ہڑتال نہیں کر رہے خاص طور پر وہ جو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کا حصہ ہیں۔ ہم مریضوں کو ان ڈور میں آؤٹ ڈور کی سہولیات دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت