بلوچستان: لاپتہ افراد کے لیے احتجاج کرنے والوں کے خلاف تیسرا مقدمہ

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی لانگ مارچ کے منتظمین نے بتایا کہ ان کے خلاف کوہلو میں تیسرا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پانچ دسمبر، 2023 کو تربت سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں حصہ شریک ہیں (انڈپینڈنٹ اردو/ عزیز الرحمان صباؤن)

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی لانگ مارچ کے منتظمین نے پیر کو بتایا کہ ان کے خلاف تیسرا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

لانگ مارچ کا اہتمام کرنے والی تنظیم ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ کے رکن گلزار دوست نے بتایا کہ نال اور خضدار کے بعد کوہلو میں مارچ کے شرکا کے خلاف تیسرا مقدمہ درج ہوا۔

لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف کوہلو پولیس سٹیشن میں پولیس کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر میں پانچ افراد نامزد ہیں، جبکہ 25 سے 30 نامعلوم ملزمان کا ذکر بھی ہے۔

ایف آئی آر میں نامزد افراد میں سماجی رہنما میر نعمت مری، بی ایس او کے رکن مولا بخش مری اور صحافی نذر بلوچ قلندرانی شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ریلی کے شرکا نے 16 دسمبر کو کوہلو میں ایک جلسے کے دوران سکیورٹی اداروں کو مبینہ ’دہشت گردی‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ریلی میں شامل کچھ خواتین نے کوہلو شہر کی دیواروں پر اشتعال انگیز الفاظ تحریر کیے، جبکہ ان کی مدد کے لیے ایک سبز رنگ کی ڈبل کیبن جیپ بھی موجود تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق ریلی کے 20۔30 شرکا نے سادہ لوح لوگوں کو اشتعال انگیزی، افواج پاکستان اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اکسا کر دانستہ جرم کا ارتکاب کیا۔

کوہلو تھانے کے ایک اہل کار علی احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقدمہ ایس ایچ او کی مدعیت پر درج کیا گیا، لیکن تاحال کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔  

لانگ مارچ کی منتظم ماہ رنگ نے کہا: ’ہمارا ایک پرامن مارچ ہے۔ ہمارے مطالبات جائز اور قانونی ہیں اور یہ جدوجہد لاپتہ افراد کی بازیابی تک جاری رہے گی۔‘

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے آج کوئٹہ پریس کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لانگ مارچ کے تمام مطالبات منظور ہو چکے ہیں اور اب لانگ مارچ کو طول دینے کا کوئی جواز نہیں۔

احتجاج کا یہ سلسلہ تربت کے رہائشی بالاچ مولا بخش کی 21 نومبر کو (تربت کے) پسنی روڈ پر تین دوسرے افراد کے ساتھ مارے جانے کے دو روز بعد شروع ہوا۔

بالاچ کے لواحقین نے محکمہ انسداد دہشت گردی سی ٹی ڈی پر زیر حراست ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا اور لاش کے ہمراہ تربت میں احتجاج بھی کیا۔

جان اچکزئی کے مطابق بالاچ کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

بالاچ کی موت کے خلاف تربت میں کئی روز تک دھرنوں اور مظاہروں کے علاوہ شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتالیں بھی ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تربت میں احتجاج کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی لانگ مارچ کا اہتمام کیا، جس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین بھی شریک ہیں۔ شرکا نے لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں، جن پر ان کی بازیابی کے مطالبات درج ہیں۔

گلزار دوست نے بتایا کہ مارچ کے شرکا تاحال پنجاب کے جنوبی شہر ڈیرہ غازی خان میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے گرفتار ساتھیوں کی بازیابی کے لیے دھرنا دے رکھا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ڈیرہ غازی خان میں گرفتار کیے گئے تمام افراد کی رہائی تک روڈ بند اور دھرنا جاری رہے گا۔‘

اس سے قبل مارچ کے شرکا آٹھ دن کا سفر طے کر کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچے تھے، جہاں انہیں ریڈ زون کی طرف جانے سے روکنے کے لیے تمام راستے کنٹینرز لگا کر سیل کیے گئے تھے۔

ریڈ زون جانے کی اجازت نہ ملنے پر مارچ کے شرکا نے سریاب کے مقام پر تین دن تک دھرنا دیا اور بعد ازاں کوہلو کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں انہوں نے ریلی منعقد کی۔

جان اچکزئی کے مطابق لانگ مارچ کے کوئٹہ پہنچنے پر شرکا کو مذاکرات کے دوران بتا دیا گیا تھا کہ وہ شہر میں ریڈ زون کے علاوہ کہیں بھی جلسہ یا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان