اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے بدھ کو بلوچ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کسی ایجنسی کو استثنیٰ نہیں کہ جس کو مرضی برسوں کے لیے اٹھا کر لے جائیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بڑے دفاتر میں بیٹھے لوگ بھی خود کو مستثنیٰ تصور نہ کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ ’کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں کہ جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے، وہ آکر کہتا ہے کہ میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ بند کمروں میں نہ کہانی سنائیں گے، نہ میں بند کمروں میں کسی کی سنوں گا۔ جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ بازیابی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران بلوچ طلبہ کو بازیاب کروانے کا حکم دیتے ہوئے آج نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نگران وزرا کو طلب کر رکھا تھا۔
تاہم نگران وزیراعظم کے بیرون ملک دورے اور عدم دستیابی کے باعث نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور نگران وزیر برائے انسانی حقوق خلیل جارج عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی، جہاں سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقعے پر لاپتہ بلوچ افراد کے اہل خانہ بھی عدالت میں موجود تھے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’22 بلوچ طلبہ کو بازیاب کروا لیا گیا ہے، وہ گھر پہنچ چکے ہیں جبکہ 28 بلوچ افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آ سکے، میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کی کوششیں کریں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ’کمیشن کی ریورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے گئی تھی، کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی، جسے یہ معاملہ بھیجا گیا۔ کمیشن کو آرڈر تھا کہ ایکشن سے متعلق تجاویز دیں۔‘
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’28 طلبہ کی شناختی کارڈز کی تفصیل نہ ہونے کے باعث وہ تاحال لاپتہ ہیں۔‘
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’سادہ سی بات ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ سارے لاپتہ افراد یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ کیا وہ پاکستانی شہری نہیں، تمام الزام سکیورٹی ایجنسیوں پر ہے، یہ رپورٹ بادی النظر میں ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں کوئی لا اینڈ آرڈر نہیں ہے، جس کا جو جی میں آئے وہ کیے جا رہا ہے۔‘
جسٹس محسن کیانی نے مزید کہا کہ ’سارا الزام ریاستی ایجنسیوں پر ہے۔ یہ ہمارے شہری ہیں۔ ان کی مائیں بہنیں بھائی رو رہے ہیں، وہ بلوچستان سے چلتے ہیں اور یہاں کمیشن کے سامنے آکر پیش ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے نگران وزیر داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آج 22 ویں سماعت ہے، آپ نے ساری ایجنسیوں کو بلا کر پوچھنا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جواب دیا کہ ’کمیشن نے بہت سی چیزوں کو نہیں دیکھا، بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ یہاں سے لوگ افغانستان چلے گئے۔‘
جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگی کے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں، ایک طرف مخصوص ادارے پر الزام ہے، انویسٹی گیشن بھی انہوں نے کرنی ہے، سیکرٹری دفاع ذمہ دار ہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نہ ہوں، جبری گمشدگی کیسز کا حل نکال کر انہیں رہا کریں یا عدالت میں پیش کریں۔ آج تک کسی ریاستی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مانتے بھی نہیں ہیں کہ یہ جبری گمشدگی کے کیسز ہیں۔‘
نگران وزیر داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ’بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ لوگ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ایک شخص بھی لاپتہ ہے تو وہ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اسے ڈھونڈیں گے، یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ایک ایک کیس کو ہم دیکھیں گے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’سارے ادارے سیکرٹری دفاع کے ماتحت ہیں۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ ججزنے جا کر بندے بازیاب نہیں کرنے، ہم صرف حکم دے سکتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ملک شہدا کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ پاکستانی فوج نے جو قربانیاں دیں، اس سے انکار نہیں ہے۔ کوئی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو قانون کے مطابق کارروائی کریں، لیکن عدالت میں پیش کریں۔‘
سماعت کے دوران لاپتہ افراد کی وکیل ایمان مزاری نے حکومتی جواب سننے کے بعد کہا کہ ’میں نے ابھی چیک کرنا ہے کہ جن کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں، وہ بازیاب ہو گئے۔‘
عدالت نے نگران وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ ’دو ہفتے میں ان بلوچ خاندانوں سے ملیں اور جو بلوچستان میں ہیں، وہاں جا کر ان سے ملیں۔ سیکرٹری دفاع کو ہدایات جاری کریں اور اپنے ماتحت اداروں کو بلا کر ان سے پوچھیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا: ’بڑے دفاتر میں بیٹھے لوگ اپنے آپ کو مستثنیٰ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو آپ اور وزیراعظم کے خلاف ایف آئی آر کا آرڈر کروں گا۔ بڑے واضح الفاظ میں یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ بھی ذمہ دار ہوں گے۔‘
عدالت نے تمام لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی تفصیلات حکومتی کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 10 جنوری تک ملتوی کر دی۔