پروڈکشن آرڈرز کے باوجود لاپتہ افراد کمیشن عمل درآمد میں ناکام

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے دستاویزات کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن نے 600 افراد کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے لاپتہ نوجوان اسد اللہ کی والدہ گذشتہ 10 برس سے اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہیں، اس تصویر میں وہ نیلے رنگ کی شرٹ میں ہیں (والدہ زاہدہ شاہین)

پاکستان بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کی طرف سے کئی سو افراد کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جانے کے باوجود ان پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے جس کی وجہ سے کئی خاندان آج تک اپنے پیاروں کے لیے منتظر ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے دستاویزات کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن نے 600 افراد کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

کمیشن کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کمیشن کی رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا: ’تاحال ان پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہیں ہوا اور ان 600 میں سے کسی ایک فرد کو بھی سامنے نہیں لایا گیا۔‘

گمشدہ افراد کے خاندان آج تک ان کی واپسی کے منتظر

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے لاپتہ نوجوان اسد اللہ کی والدہ زاہدہ شاہین گذشتہ 10 برس سے اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہیں۔

انہوں نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کی اور بتایا: ’وہ لاہور میں پڑھتا تھا اور اس کی عمر تب 26 سال تھی۔ وہ سال 2013 میں ستمبر کے مہینے میں جبری طور پر گمشدہ ہوا۔‘

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے اسد اللہ وٹو لاہور میں زیر تعلیم تھے جب وہ لاپتہ ہوئے۔ اسد کی والدہ نے بتایا: ’پولیس کو میں نے اس حوالے سے ثبوت بھی فراہم کیے۔ لاپتہ افراد کے کمیشن نے اسد کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے، اسے بھی تقریبا چار سال گزر چکے ہیں لیکن اسد واپس نہیں آیا۔

’میں نے پروڈکشن آرڈر کی کاپی کی درخواست دی جس کے بعد کمیشن نے مجھے بلایا۔ کمیشن کی جانب سے اب دوبارہ سماعت کی تاریخ بھی نہیں دی جا رہی۔‘

ان کی والدہ نے بتایا کہ اسد اللہ خود بھی پڑھ رہا تھا اور ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ ’میرے سارے بچے لاہور ہی میں پڑھتے تھے۔ اس کے لاپتہ ہونے سے دو تین ماہ قبل میرے سارے بچے اوکاڑہ آ گئے تھے بس اسد ہی لاہور میں اکیلا رہ رہا تھا۔ وہ اس دوران اوکاڑہ آتا جاتا رہتا تھا مستقل نہیں رہ رہا تھا۔ ان دنوں ہم اسد کی شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم آج تک اس کے منتظر ہیں۔‘

لاپتہ افراد کی واپسی کی تعداد کمیشن رپورٹ کا حصہ نہیں

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے دستاویز کے مطابق اسد اللہ کے پروڈکشن آرڈر چار سال قبل 13 جولائی 2019 کو جاری کیے گئے۔ اس آرڈر کے بعد اسد اللہ کو چھ ہفتے کے اندر پیش کیا جانا تھا۔

لاپتہ افراد کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں ملک بھر سے لاپتہ افراد کے 860 کیسز رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں لاپتہ افراد کے سب سے زیادہ 128 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اب تک لاپتہ افراد کے کل نو ہزار 133 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

سال 2021 میں لاپتہ افراد کے 1460 کیسز رپورٹ ہوئے اور ملک بھر میں اس وقت 977 افراد انٹرنمنٹ سینٹرز میں قید ہیں۔ قیدیوں میں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے شہریوں کی ہے۔

کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کیسز اور نمٹا دیے جانے والے کیسز سمیت پروڈکشن آرڈر کے اجرا سے متعلق تفصیلات موجود ہیں لیکن لاپتہ افراد کی واپسی کی تعداد کمیشن رپورٹ کا حصہ نہیں ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویزات کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن نے 600 افراد کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔ پانچ ہزار 217 افراد کو ٹریس کیا گیا جن میں سے کچھ جیل میں موجود ہیں جبکہ کچھ انتقال کر گئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار نومبر 2022 تک کے ہیں۔ ان اعداد و شمار بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی جمع کروائے گئے ہیں۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو گفتگو میں بتایا کہ یہی کہا جاتا ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے چھ ہفتے کے اندر فرد کو پیش کریں، جس کے بعد کوئی سماعت بھی نہیں ہوتی۔

ان افراد کے خاندان والے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد خوش ہو جاتے ہیں کہ بندہ پیش ہو جائے گا لیکن اس کے کے پیش نہ ہونے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہی نہیں ہوتی۔

’اگر ان کے خاندان والے کمیشن سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ فرد واپس نہیں آیا اور فائل ریکارڈ میں رکھ دی جاتی ہے جو ایک طرح سے بند ہو جاتی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر کیس دوبارہ کھلوانا چاہتے ہیں تو درخواست دے دیں۔ ہم دوبارہ درخواست بھی دیتے ہیں لیکن جن کیسز میں پروڈکشن آرڈر جاری کیے جاتے ہیں، ان میں کچھ نہیں ہوتا۔ تاحال ان پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہیں ہوا اور ان 600 میں سے کسی فرد کو سامنے نہیں لایا گیا۔‘

آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں اسد اللہ وٹو کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوئے تقریباً چار سال گزر گئے لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ان کا خاندان شدید تکلیف میں ہے۔

لاپتہ افراد کمیشن کو مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے جو آج تک نہیں ہو سکا۔ کمیشن کے بنائے جانے کے بعد اس کے پاس 137 کیسز تھے اور اب یہ لسٹ 10 ہزار کو پہنچ رہی ہے۔

’ملوث افراد کے خلاف کیس فائل نہیں کیے گئے‘

آمنہ جنجوعہ کے مطابق کمیشن کے مینڈیٹ میں مجرموں کے خلاف کیس فائل کرنا بھی تھا۔

آمنہ جنجوعہ کے مطابق کمیشن کے مینڈیٹ میں مجرموں کے خلاف کیس فائل کرنا بھی تھا۔

انہوں نے خود کہا کہ ان کے پاس 153 افراد کے نام ہیں جو جبری گمشدگیوں میں ملوث پائے گئے۔ مگر ان کے خلاف کوئی کیس فائل نہیں کیا ۔

’کیا ان افراد کو استثنیٰ حاصل ہے؟ ایسے مسئلے پھر کبھی حل نہیں ہو سکتے۔ یہ کمیشن اب بند گلی میں جا چکا ہے۔ کمیشن خاندان تک کو پروڈکشن آرڈر نہیں دیتا، خاندان کو اسے حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس دائر کرنا پڑتا ہے۔ کیس چلنے کے دو سال بعد یہ فائل فراہم کرتے ہیں۔‘

آمنہ مسعود کہتی ہیں کہ عدالتیں فیصلہ گھر ارسال کرتی ہیں جسے جاننا کسی کا بھی حق ہے مگر لاپتہ افراد کمیشن کوئی کورٹ آرڈر نہیں دیتا اور آدھے گھنٹے میں دس سے 12 کیسز نمٹا دیے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق کمیشن انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہر ساجد محمود کی اہلیہ ماہرہ ساجد کے کیس سماعت نہیں کر رہا تھا اور اس کا کہنا تھا ’کیونکہ آپ عدالت گئی ہیں اس لیے آپ کے کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ جب بالآخر سماعت کے لیے کیس لگایا گیا تب جج سمیت کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ ساجد کا پروڈکشن آرڈر جاری ہوا یا نہیں۔

آمنہ مسعود نے کہا: ’ہمیں تاحال اس کے جاری ہونے سے متعلق معلومات موصول نہیں ہوئیں۔ ہائی کورٹ نے متعلقہ افراد جن میں پولیس افسران اور کمشنر شامل تھے کو جرمانہ کیا لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکا۔‘

14 مارچ 2016 کو اسلام آباد میں رہائش پذیر ساجد محمود کو ان کے گھر چھاپہ مار کر ان کی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے سامنے اٹھایا گیا۔

حکومتی موقف

انڈپینڈنٹ اردو نے لاپتہ افراد کمیشن کے سیکریٹری فرید خان سے اس حوالے سے موقف لینے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ، جو اب سپریم کورٹ میں بطور جج اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’اس بات سے اختلاف نہیں کہ لوگ خود چلے جاتے ہیں لیکن ریاست کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے۔‘

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ اور سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو ہٹانے کے لیے تیار تھی انہوں نے درخواست دی کہ انہیں دسمبر 2022 تک عہدے پر کام کرنے دیا جائے۔

’انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں گے لیکن وہ اب تک عہدے پر قائم ہیں۔‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال سال 2011 سے لاپتہ افراد کمیشن کے چیئرمین ہیں۔

وفاقی حکومت کے اس بیان سے واضح ہے کہ حکومت خود لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کی کارکردگی سے مطمئین نہیں ہے تاہم وہ اب تک اس عہدے پر موجود ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان