اسلام آباد ہائی کورٹ: وزیراعظم کی لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی یقین دہانی

وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کے کیس میں ہر پیش رفت سے عدالت کو آگاہ رکھے گی۔

پانچ اپریل 2022 کی اس تصویر میں وزیراعظم (سابق اپوزیشن لیڈر) شہباز شریف سپریم کورٹ میں ہونے والی ایک سماعت کے موقع پر عدالت سے واپس جاتے ہوئے (اے ایف پی)

وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کرے گی اور اس متعلق ہر مرحلے پر عدالت کو آگاہ رکھا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف جمعے کی صبح صحافی مدثر نارو اور دوسرے لاپتہ افراد کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔

وفاقی وزرا قانون اعظم نذیر تارڑ اور داخلہ رانا ثنا اللہ کے ہمراہ وزیر اعظم کمرہ عدالت میں روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی ملک میں موجودگی کے باوجود انہوں نے کورٹ کے سامنے پیش ہونے کو مقدم جانا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کئی مہینوں سے عدالت میں چل رہا ہے اور صورت حال ابھی بھی پہلے ہی جیسی ہے، اسی لیے اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتائیں کہ دراصل ایشو کیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کو ان کے اہلِ خانہ سے ملوایا جائے گا اور لاپتہ افراد کیس کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

انہوں نے کہا: ’میں عوام اور اللّٰہ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں، لاپتہ افراد سے متعلق بنائی گئی کمیٹی چھ اجلاس کر چکی ہے۔ اس کمیٹی کے ہر اجلاس کی رپورٹ عدالت میں پیش کروں گا، یہ رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت سے پولیس کی وردی میں لوگ شہریوں کو اٹھا کر لے گئے، جس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا، جس نے اسے وفاقی کابینہ کو بھیج دیا، اور کیبنٹ نے کمیٹی بنا دی۔

’یہ معاملہ صرف کمیٹی کا نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں ریاست کو اقدامات کرنا ہوں گے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا ایک چیف ایگزیکٹیو نے اس ملک پر نو سال حکمرانی کی اور انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرونِ ملک فروخت کیا۔

’اس سے لگتا ہے کہ شاید یہ ریاست کی پالیسی تھی، آئین کی بات کریں تو ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی، یہ عدالت انویسٹی گیشن ایجنسی نہیں، آئینی عدالت ہے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن بنا اور اس کی کارروائی جو سامنے آئیں وہ بہت تکلیف دہ ہیں، ریاست کی ذمے داری ہے کہ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ کرے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں حراستی مراکز قائم ہیں، جہاں سے لوگ بازیاب ہوئے لیکن کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ تاثر ہماری نیشنل سکیورٹی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتہ کرنا تشدد کی سب سے بڑی قسم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ ایگزیکٹو سے پوچھا جائے، جب ریاست آ کر بتاتی ہے کہ ہمیں نہیں پتہ لوگ کس نے لاپتہ کیے، پھر عدالت کیا کرے؟

’آپ متاثرینِ سیلاب کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے کورٹ آئے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، یا تو آپ کو کہنا پڑے گا کہ آئین اپنی اصل شکل میں بحال نہیں، اس ملک کی نیشنل سکیورٹی آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ اس ملک میں گورننس کے بھی بہت ایشوز ہیں، اس ملک کے مسائل تب حل ہوں گے جب آئین کی مکمل بحالی ہو، سویلین ایگزیکٹو کنٹرول میں ہیں، اس کورٹ کو آپ پر اعتماد ہے، جب چھوٹا بچہ کورٹ آتا ہے، تو عدالت کس کو جوابدہ بنائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم سے بھی بچے کی ملاقات کرائی گئی، آپ اس عدالت کو حل بتا دیں کہ مسنگ پرسنز کیس میں کسے ذمے دار ٹھہرائیں؟

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عدالت کے روبرو کہا کہ ’یہ میری ڈیوٹی تھی کہ عدالت کے کہنے پر پیش ہوتا، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان میں ہیں، میری ان سے ملاقات تھی، جب مجھے عدالت کا حکم ملا تو میں نے کہا کہ کورٹ جاؤں گا۔

’ایک لاپتہ شخص کے بچے نے کہا کہ میرے والد کو مجھ سے ملا دیں، بچے کا یہ جملہ میرے لیے بہت پریشان کُن تھا، میں اپنی ذمے داری پوری کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کروں گا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے، ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’میں نے دن رات محنت کی لیکن پھر بھی سزا دی گئی، لاپتہ افراد کیسز میں آپ کو ہمارا رویہ نظر آئے گا۔‘

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سابق سربراہِ حکومت نے تسلیم کیا کہ افراد کو لاپتہ کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی لاپتہ ہوا تو ریاست ذمے دار ہے، شہریوں کو لاپتہ کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے۔‘

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’جس نے لوگوں کو لاپتہ کرنا شروع کیا وہ آمر تھا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر کوئی دہشت گرد ہے تو اس کے ساتھ بھی قانون کے ساتھ پیش آنا ہوتا ہے۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’جب میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھا تو ہر زبان والے طلبا کو پنجاب میں داخلے دیے، بلوچ، پشتون، سندھی، پنجابی سب طلبا کو دانش سکولز میں مفت داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی یہ سب پاکستانی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان