برطانوی سیاست کا بحران : وزیر اعظم کی مرضی کے خلاف بل منظور

ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے کامنز ایجنڈے کی منظوری کے بعد اس پیش کردہ قانون کو شاہی منظوری کے لیے ملکہ کے پاس بھیجا جائے گا جو اگلے ہفتے پارلیمان کا اجلاس معطل ہونے سے باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانس پہلے بھی بریگزٹ کے حوالے سے اپنے اقدامات پر عوامی احتجاج کا سامنا کر رہے ہیں۔ (اے پی)

جمعے کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے نئے قانون، جس سے ’نو ڈیل بریگزٹ‘ کو روکا جا سکے گا، کے پیش کاروں کو خدشہ ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔ کامنز بریگزٹ کمیٹی کے سربراہ ہلیری بین ان خدشات کا اظہار وزیراعظم کے اس بیان کے بعد کیا جس میں جانسن کا کہنا تھا کہ وہ بریگزٹ میں مزید تاخیر کی درخواست کرنے کی بجائے ’کھائی میں گر کر مرنا پسند کریں گے۔‘

وزیر اعظم کو انتباہ  کرتے ہوئے کہ وہ 31 اکتوبر کو پارلیمنٹ کی خواہشات کے خلاف معاہدے کے بغیر برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے پر ہونے والی قانون سازی کو نظرانداز نہ کریں، لیبر پارٹی کے سینیئر ممبر پارلیمنٹ نے کہا: ’یا تو ہم قانون کی حکمرانی کو تسلیم کریں یا پھر اس سے انکار کر دیں۔‘

دارالامرا کی جانب سے بین کا بل منظور ہونا تباہ کن ہفتے میں وزیر اعظم کے لیے تازہ ترین دھچکا تھا۔ اس ہفتے میں انہیں ویسٹ منسٹر میں بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ اپنی اکثریت سے محروم ہو گئے، قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے میں میں ناکام ہوئے، اپنے 21 ممبران پارلیمنٹ کو باہر نکال دیا اور تو اور ان کے اپنے بھائی ان کی حکومت سے علیحدہ ہو گئے۔

ممبران پارلیمنٹ کے ذریعے کامنز ایجنڈے کی منظوری کے بعد اس پیش کردہ قانون کو شاہی منظوری کے لیے ملکہ کے پاس بھیجا جائے گا جو اگلے ہفتے پارلیمان کا اجلاس معطل ہونے سے باقاعدہ قانون بن جائے گا۔

بریگزٹ کی آخری تاریخ 31 اکتوبرسے پہلے اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم جانسن کو دو تہائی اکثریت سے محروم کر دیا جس کے بعد نومبر میں ہونے والے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

جانسن نے کہا کہ اس نئے قانون سے ان کے برسلز کے ساتھ یورپی یونین آئندہ ماہ کے اختتام تک چھوڑنے کے معاہدے پر بات چیت کے امکان کو نقصان پہنچے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یورپی یونین سے تیسری بار بریگزٹ کے لیے مہلت کی درخواست کرنے کی بجائے استعفیٰ دیں گے تو انہوں نے جواب دیا: ’یہ ایک قیاس آرائی ہے جس پر میں غور نہیں کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم یہ کام کر گزریں۔‘

ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان نے وزیر اعظم کے استعفی دینے کے امکان کو رد کرتے ہوئے صرف یہ کہا: ’ہم یہاں ایک وقت میں ایک قدم اٹھا رہے ہیں۔‘

بل کی شرائط کے تحت وزیراعظم جانسن کو اگلے سال جنوری کے آخر تک بریگزٹ مذاکرات میں توسیع کی درخواست کرنی ہوگی جب تک کہ وہ 19 اکتوبر تک حتمی معاہدے تک نہ پہنچ جائیں یا ’نو ڈیل‘ معاہدے کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری نہ لے لیں۔

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین معاہدے کے خاتمے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد یہ قانون بدھ کے روز دارالعوام میں چند گھنٹوں کے دوران منظور کر لیا گیا تھا جبکہ دارالامرا میں اس حوالے سے تمام مراحل دو دن میں مکمل ہوگئے۔

بین نے کہا کہ وہ ان خدشات سے بہت پریشان ہیں کہ وزیراعظم جانسن اس بل پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔

بریگزٹ کمیٹی کے چیرمین بین نے کہا: ’مجھے خوشی ہے کہ 31 اکتوبر کو نقصان دہ ’نو ڈیل‘ معاہدے کو روکنے کے لیے دارالامرا نے منظوری دے دی ہے لیکن میں وزیر اعظم کے ان بار بار دہرائے جانے والے بیانات سے بہت پریشان ہوں جن میں جانسن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت توسیع کی درخواست نہیں کریں گے۔‘

’اس کا مطلب ہے یا تو ہم قانون کی حکمرانی تسلیم کریں یا اس سے انکار کر دیں۔‘

شیڈو بریگزٹ سیکرٹری سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ اس بل کی منظوری ’بورس جانسن کے ’نو ڈیل‘ بریگزٹ کو روکنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں ایک بہت اہم فتح  ہے۔‘

سر کیئر نے کہا کہ ’ہم وزیر اعظم کو لوگوں کے روزگار اور معیشت کو خطرہ میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

لیکن ٹوری کے رہنما سر میلکم رفکںڈ نے اس حکمت عملی کو ’بچگانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ محض ایک ماہ کی تاخیر سے بریگزٹ عمل کو متعارف کرایا جائے گا جو کاروبار اور ملازمتوں کو نقصان پہنچائے گا اور حتمی نتائج کو متاثر کیے بغیر غیر یقینی صورتحال اور سیاسی جمود کو طول دے گا۔

’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے سر میلکم نے پیش گوئی کی کہ وزیراعظم جانسن ڈاؤننگ سٹریٹ کو الوداع کرنے کی بجائے یو ٹرن کی ’رسوائی‘ کو قبول کر لیں گے۔

یا انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں جانسن چند ہفتوں کے لیے اقتدار سے الگ ہوسکتے ہیں اور ایک نگراں وزیر اعظم کا تقرر کرسکتے ہیں تاکہ وہ معاہدے میں مزید توسیع کی درخواست کرنے کے لیے تکلیف دہ کام انجام دے سکیں اور جانسن ذاتی طور پر اپنے وعدے کو توڑنے سے بھی بچ جائیں اور ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ بھی واپس پہنچ جائیں۔

سابقہ ​​وزیر خارجہ نے جانسن کے ’کھائی میں گر کر مرنے‘ والے تبصرے کو ’ڈرامائی بیان‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔  

انہوں نے کہا: ’حقیقت یہ ہے کہ وہ (جانسن) قانون نہیں توڑنے جا رہے۔ یہ حکومت کے لیے ایک سنجیدہ سیاسی شرمندگی ہے لیکن حقیقی دنیا میں انتخابات میں تاخیر سے بریگزٹ پر کوئی عملی اثر نہیں پڑے گا تاہم یہ (تاخیر) کاروبار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔‘

لیبر پارٹی کے جیریمی کوربین اور لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے جو سوئنسن سمیت حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیر کے روز 15 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کی حمایت میں ووٹ نہ ڈالنے کے مطالبے پر اتفاق کیا ہے۔  ان کو خدشہ ہے کہ وزیراعظم جانسن ہالووین کی آخری تاریخ ختم ہونے تک ’نو ڈیل‘ معاہدے پر ہونے والی قانون سازی کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

لبرل ڈیموکریٹ کے ترجمان نے کہا: ’ہم سب متفق تھے کہ ہم بورس جانسن کو بھاگنے نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’لبرل ڈیموکریٹس کی موجودہ حکمت عملی یہ ہے کہ ہم اس وقت تک عام انتخابات کے لیے ووٹ نہیں دیں گے جب تک کہ یورپی یونین کے ساتھ توسیعی معاہدے پر اتفاق نہیں ہوجاتا۔ مجھے لگتا ہے کہ دوسری جماعتیں بھی ایسا ہی سوچ رہی ہیں۔‘

’ایک گروپ کی حیثیت سے ہم سب پیر کو اس (انتخابات) کے خلاف ووٹ دیں گے یا اس سے غیر حاضر رہیں گے۔‘

کنزرویٹوز نے کوربین کو ان انتخابات کی مخالفت کرنے پر "چکن" کا نام دیا ہے جس کے لیے وہ طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے تھے۔

جانسن نے ایبرڈنشائر کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’میں نے جمہوریت کی تاریخ میں کبھی ایسی اپوزیشن نہیں دیکھی جو انتخابات سے انکاری ہوں لیکن یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے وہ (اپوزیشن جماعتیں) عوام پر اعتماد نہیں کرتے انہیں نہیں لگتا کہ لوگ انہیں ووٹ دیں گے لہذا وہ انتخابات کرانے سے انکار کر رہے ہیں۔‘

’لہذا ہم 17 تاریخ کو سربراہی اجلاس میں جائیں گے۔ ہم ایک معاہدہ کریں گے اور 31 اکتوبر کو اس (یورپین یونین) سے نکل جائیں گے۔‘

بل میں اراکین پارلیمنٹ کو تھریسا مے کے انخلا کے معاہدے کی حتمی شکل کے لیے ووٹ ڈالنے کی دفعات شامل ہیں۔ یہ حادثاتی طور پرایک ترمیم کی بدولت ہوا جب ٹیلرز کو ووٹ کی مخالفت کرنے والوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

پارلیمنٹ کی مختلف جماعتوں کا ایک گروپ جو خود کو ’ایم پیز فار ڈیل‘کا نام دیتا ہے، جس میں رواں ہفتے بورس جانسن کی جانب سے برطرف کیے جانے والے ٹوری کے وزیر روری سٹیورٹ، لیبر پارٹی کے سٹیفن کنناک اور کیرولائن فلنٹ اور لیبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے سر نارمن لیمب بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ مے کے سمجھوتہ کے منصوبے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں نے وزیر اعظم کو ایک معاہدہ کے حصول کے لیے ’ایک ٹھوس اور حقیقت پسندانہ بنیاد‘ فراہم کی تھی جو 14 اکتوبر کے التوا سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کی جاسکتی ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ