بےنظیر بھٹو کی موت، پنڈی ہسپتال میں کیا ماحول تھا؟

راولپنڈی کی 27 دسمبر 2007 کی وہ سرد شام کوئی کیسے بھول سکتا ہے، انڈپینڈنٹ اردو کے ہارون رشید اس وقت ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک تھے اور کوریج کے لیے ہسپتال پہنچے۔

27 دسمبر 2007 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے موقع پر سپورٹرز کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے (اے ایف پی)

راولپنڈی کی 27 دسمبر 2007 کی وہ سرد شام کوئی کیسے بھول سکتا ہے، جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا، خاص کر وہ صحافی جنہوں نے اس واقعے کی کوریج کی۔

ہم اسلام آباد میں اپنے دفتر میں جنوری کے انتخابات کی انتخابی مہم کے آخری مراحل کی معمول کی کوریج میں مصروف تھے کہ خبر آئی کہ روات میں ایک انتخابی جلسے پر فائرنگ ہوئی ہے۔  اطلاع یہ تھی کہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی ریلی پر فائرنگ ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں چار اموات ہوئی ہیں۔

اپنے ساتھی رپورٹر شہزاد ملک کو اس واقعے کے کوریج کے لیے کرال چوک روانہ کیا کہ تھوڑی دیر بعد خبر آئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے جلسے کے خاتمے پر وہاں بھی فائرنگ ہوئی ہے۔ پھر بےنظیر کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں تو سوچا کہ خبر بڑی ہے فوراً نکلنا چاہیے۔

اسلام آباد سے راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا اور عوام احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل چکے تھے۔ جگہ جگہ لاٹھی بردار افراد سڑک پر راج کر رہے تھے اور توڑ پھوڑ میں مصروف تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمس آباد کے علاقے تک ہی گاڑی میں جا سکے، آگے ممکن نہیں تھا تو گاڑی وہیں ایک طرف پارک کر دی اور پیدل راولپنڈی کے سینٹرل یا جنرل ہسپتال پہنچے کی کوشش شروع کی، جہاں سنا کہ زخمی بےنظیر کو بچانے کے لیے لایا گیا ہے۔ مشتعل افراد سے گفتگو بھی کی جنہوں نے اسے ملک اور جمہوریت کے لیے ایک اور بڑا سانحہ قرار دیا۔

مشتعل جیالوں کا مری روڈ پر راج تھا اور پولیس اہلکار کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔

ہسپتال پہنچے تو بے نظیر بھٹو کی موت کی تصدیق ہوچکی تھی۔ وہاں بھی پیپلز پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ بےنظیر کو پہلی چھت پر آپریٹنگ روم میں لے جایا گیا تھا جہاں کا کوریڈر پارٹی کی خواتین رہنماؤں سے بھرا پڑا تھا، جو زارو قطار رو رہی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ ہسپتال کے عملے کا بھی بے نظیر کے کمرے میں جانا محال تھا، لہذا کچھ کو عمارت کے عقب میں سیڑھی لگا کر پہنچایا گیا۔   

اس واقعے کی اطلاع ملنے پر میاں نواز شریف ہسپتال پہنچ گئے اور خدشہ یہی تھا کہ اب جیالے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیں گے لیکن جیالے نواز شریف کے گلے لگ کر روتے رہے۔

کئی گھنٹوں کے بعد جسد خاکی کو ایک براؤن تابوت میں رکھ کر نیچے لایا گیا۔ اس وقت بھی جیالوں کی نعرہ بازی اور رونا جاری تھا۔

وہ خونی شام ایک طویل رات میں تبدیل ہوچکی تھی۔ میں راولپنڈی کے جنرل ہسپتال کے باہر رات گئے تک اس واقعے کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتا رہا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بی بی کا جسد خاکی ہسپتال سے روانہ نہیں کر دیا گیا۔

ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے میڈیا کو بریف کرنے کا اس زمانے میں کوئی انتظام نہیں تھا، لہذا اس رات سب نے یہی رپورٹ کیا کہ موت گولی لگنے سے ہوئی۔ یہ تو بعد میں تحقیقات سے بات سامنے آئی کے موت کی وجہ خودکش حملہ آوروں کی گولیاں یا خودکش بمبار کے چھرے نہیں تھے بلکہ ان کی گاڑی کی چھت کا لیور تھا۔

پیپلز پارٹی آج تک اس کی ذمہ داری بظاہر تو تحریک طالبان پاکستان کے بیت اللہ محسود پر ڈالتی ہے اور اس بارے میں ان کی آڈیو گفتگو بھی ایک پریس کانفرنس میں عام کی گئی لیکن اس سانحے کے پیچھے اصل طاقت کون سی تھی، اس بارے میں پیپلز پارٹی آج بھی کھل کر بات نہیں کرتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی