2024 میں انتہا پسندی کو کیسے قابو کیا جائے؟

پاکستان میں 2023 کے دوران ناقص گورننس کو برداشت کیے جانے کے علاوہ قانون کی حکمرانی کا واضح فقدان موجود رہا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں 12 دسمبر، 2023 کو عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار جائے وقوعہ کا جائزہ لیتے ہوئے (اے پی)

پاکستان میں 2023 میں عسکریت پسندی کے واقعات میں 60 فیصد نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور ملک میں ہر ماہ اوسطاً 78 جانوں کے ضیاع کا سوگ منایا جاتا ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تمام واقعات میں سے 57 فیصد شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں اور 41 فیصد شورش زدہ جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پیش آئے۔ ملک کی مغربی سرحدوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جہاں 98 فیصد واقعات ان سے ملحقہ علاقوں میں پیش آئے۔

اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی شہری مراکز بھی سماجی و اقتصادی عوامل سے متاثر ہو کر مسلسل جرائم اور عسکریت پسندی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2023 تک دنیا میں 27 جاری تنازعات تھے۔ خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں جہاں خانہ جنگی، علاقائی تنازعات ، بین الریاستی کشیدگی، عدم استحکام اور فرقہ وارانہ تنازعات شامل ہیں۔ داعش جیسی تنظیمیں عالمی منظر میں نمایاں رہیں۔ ان کی دنیا بھر میں حمایت اور سرگرمیوں کی سطح مختلف رہی۔

پاکستان میں 2023 میں فرقہ وارانہ تقسیم، مذہبی انتہا پسندی اور جرائم پیشہ مافیا کے کافی چیلنجز درپیش رہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ اس سال کیا غلط ہوا اور کیا درست کیا جا سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ناقص گورننس کو برداشت کیا گیا اور اس کی خصوصیت اہلیت کو نظر انداز کرنا اور پیشہ ورانہ مہارت پر وفاداری کو ترجیح دینا ہے۔ شفافیت اور احتساب کا فقدان رہا، جس کی وجہ سے بدعنوانی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی مربوط نیا منصوبہ نہیں تھا۔ پہلے سے موجود منصوبوں کو عملی شکل نہیں دی گئی۔

واضح اشاروں، جیسے کہ اداروں کو مضبوط بنانے اور ضروری کارروائی کی اشد ضرورت کے باوجود پاکستان نے مسائل کے عارضی حل کا راستہ نکالا، جس کے نتیجے میں بالآخر منفی نتائج برآمد ہوئے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کا واضح فقدان رہا۔ اس صورت حال نے افراد اور اداروں کو ماورائے عدالت اقدامات کا سہارا لینے پر اکسایا جب کہ ریاستی اداروں پر اعتماد کو نقصان پہنچا۔ اس انتہائی افسوس ناک صورت حال کے نتیجے میں جان و مال کے نقصان سمیت بڑا مالی بوجھ بھی پڑا، لیکن اس پر کوئی پچھتاوا ظاہر نہیں کیا گیا۔

ان حالات میں نوجوان بنیاد پرستی کی طرف مائل ہوئے اور عوام میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا۔ نتیجے کے طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر جوابی حملوں میں پریشان کن اضافہ ہوا، جس کا جواب فوجی کارروائیوں اور بلاشبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں دیا گیا۔

مسلسل سیاسی عدم استحکام، جس کی وجہ دانشورانہ بددیانتی اور داخلی مسائل کی ناقص تفہیم تھی، نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتشار کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ رہی کہ عوامی سیاست میں جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائی گئیں اور دھوکے بازی سے کام لیا گیا لیکن اس غلط پر کوئی ندامت محسوس نہیں کی گئی اور نتائج کو نظر انداز کر دیا گیا۔

احتساب کی عدم موجودگی میں کچھ عناصر کنٹرول کی تلاش میں اپنے ہی ملک کو جلانے کے لیے تیار ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2024 میں ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہو گی۔ اس ضمن میں گورننس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، بنیاد پرستی کا خاتمہ، معاشی کمزوری سے نمٹنا، آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور عسکریت پسندی سے نمٹنا شامل ہے۔

 بنیاد پرستی نے 2001 کے بعد عسکریت پسندی میں زبردست اضافہ کیا اور 2013 میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پاکستان میں حالات معمول پر لانے کے لیے 10 فوجی آپریشن کیے گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان سیاہ دنوں میں واپس نہ جائیں۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے منصوبوں کا آغاز اور ایک جامع جوابی بیانیے کا فروغ انتہائی اہم ہے۔

سیاسی استحکام کا حصول اولین مقصد ہونا چاہیے۔ ہمیں قانون کی حکمرانی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون کے لیے گڈ گورننس کے میثاق پر بھی غور کرنا ہو گا، جس سے مشکل حالات میں پالیسی اور اتحاد کا تسلسل یقینی بنے گا۔

پاکستان میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ رپبلکن آرمی (بی آر اے)، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکر جھنگوی (ایل ای جے) اور داعش سے واضح خطرات موجود ہیں۔ مخالف گروپوں کے ساتھ مذاکرات غیر موثر ثابت ہوئے ہیں اور خوش کرنے کی پالیسیاں بار بار ناکام رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے باقی ماندہ سرحدی علاقوں پر باڑ لگائیں۔

جرائم اور سمگلنگ جو دہشت گردی کی مالی مدد کا جانا پہچانا ذریعہ ہیں، کے خلاف قانون کے دائرے میں رہ کر جارحانہ انداز میں کارروائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی ڈھیل قانون کے احترام اور انصاف کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس کا نتیجہ بالآخر جبر میں اضافے اور برے قوانین کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات نئے سال کا وہ تحفہ ہے جس کا یہ ملک مستحق ہے۔ 2023 میں ہم نے جو تکلیف اٹھائی ہے، اسے ہمیں بدلنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے برسوں میں بھی ہم اس تکلیف سے گزریں۔

مصنف نے سیاسیات اور عالمی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ وہ وفاقی سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس رہ چکے ہیں۔ ان کا ایکس ہینڈل @KaleemImam ہے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ