بحیرہ احمر کشیدگی: بحری جہازوں کے سفر پر بھاری اخراجات

ایشیا سے یورپ اور امریکہ کے بحری سفر کے لیے اہم گزر گاہ بحیرہ احمر میں کشیدگی کے باعث جہازوں کے سفر کے اخراجات اور دورانیے میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

ایشیا سے یورپ اور امریکہ کے بحری سفر کے لیے اہم ترین گزر گاہ بحیرہ احمر یا ریڈ سی میں کشیدگی کے باعث جہازوں کے سفر کے اخراجات اور دورانیے میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

اس اہم ترین بحری گزرگاہ میں یمن کی حوثی ملیشیا کے بحری جہازوں پر حملوں اور امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے گذشتہ روز حوثی اہداف پر حملوں کے بعد کشیدگی میں شدت آ چکی ہے۔

 حوثی ملیشیا نے اپنے حملوں کے دوران کئی ممالک کے مال بردار بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے۔

حوثی ملیشیا کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی ملکیت یا اسرائیل سے تعلق رکھنے والے جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

حوثی ملیشیا کے حملوں کے ڈر کے باعث بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی آمد رفت رکنے سے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی کے رہائشی اور بحری جہاز پر سیکنڈ آفیسر کے طور فرائض سرانجام دینے والے عون رضا زیدی سے گفتگو کی۔

عون رضا زیدی نے 2010 میں اپنے شپنگ کیریئر کا آغاز کیا اور اب تک وہ متعدد بار مال بردار جہاز کے ساتھ بحیرہ احمر سے گزر چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عون رضا زیدی نے بتایا کہ ’بحیرہ احمر کی اتنی اہمیت ہے کہ ایشیا، یورپ اور امریکہ کے درمیان تمام بحری جہاز بشمول آئل ٹینکرز، بلک کیریئر، کار کیریئر، کنٹینرز کیریئر اسی روٹ کو استعمال کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’اس لیے اس راستے کی شپنگ انڈسٹری میں بہت زیادہ اہمیت ہے، کیوں کہ اس راستے سے ایشیا سے یورپ اور امریکہ اور اسی طرح امریکہ اور یورپ سے ایشیا کم وقت میں سامان لایا یا لے جایا جاتا ہے۔‘

عون رضا زیدی کے مطابق: ’اس راستے کا متبادل راستہ براعظم افریقہ کے نیچے سے سمندر کے ذریعے طے کیا جاتا ہے، جو بحیرہ احمر کے مقابلے میں تقریباً دگنا راستہ ہے۔‘

عون رضا نے بتایا کہ ’اگر کوئی مال بردار بحری جہاز کراچی سے یورپ یا مثال کے طور پر جرمنی بھیجنا ہے تو بذریعہ بحیرہ احمر یا سوئز کینال، یہ سامان 20 سے 21 دن میں پہنچے گا، لیکن اگر کسی وجہ سے یہ راستہ بند ہو تو متبادل راستہ براعظم افریقہ کے نیچے سے گھومتا ہوا جاتا ہے اور اس راستے سے کراچی سے جرمنی کا سفر تقریباً دگنا ہو جائے گا، اس طرح جو سامان بذریعہ بحیرہ احمر یا سوئز کینال 20 سے 21 دن میں پہنچتا، اب یہ سفر اس متبادل راستے سے 35 سے 36 دن میں طے ہو گا۔‘

عون رضا زیدی کے مطابق: ’بحری جہاز عام طور پر 20 ٹن تیل استعمال کرتا ہے تو ایک دن کے ایندھن کی قیمت 12 ہزار امریکی ڈالرز ہے۔ بحیرہ احمر یا سوئز کینال بند ہونے کی صورت میں متبادل راستے سے 15 دن مزید لگنے کی صورت میں صرف ایندھن کی مد میں اضافی ایک لاکھ 80 ہزار امریکی ڈالرز درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ شپ کا 15 دن کا مزید کرایہ ادا کرنا ہو گا۔ 15 دن کے لیے عملے کے اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔‘

 

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس متبادل راستے سے بحری قزاقوں کے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس اضافی خرچے کے بعد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے، جس کے باعث عام لوگ بھی اس راستے کی بندش سے متاثر ہوتے ہیں۔‘

تقریباً 100 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی یہ آبی گزرگاہ یمن کے ساحلی شہر راس مینہیلی اور جبوتی میں راس سیان تک پھیلی ہوئی ہے، جس کا شمالی سرا بحیرہ احمر اور جنوبی سرا خلیج عدن میں کھلتا ہے۔

بحیرہ احمر یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ یہ راستہ دنیا کی مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔

بحری جہازوں کو حملوں سے بچانے کے لیے امریکہ، چین، فرانس سمیت کئی مختلف ممالک نے اس خطے میں اپنے فوجی اڈے بنا رکھے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا