سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کے ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست پر فیصلے میں کہا کہ ’جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کر دے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔‘
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کوایک چار کا فیصلہ سنایا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے حکومتی اپیل پر سماعت کی جس میں ریٹائرڈ ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ فیصلے کے اثرات
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر سپریم جوڈیشل کی کارروائی جاری تھی کہ انہوں نے استعفی دے دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی جج کے خلاف ثابت ہونے پر کونسل صدر کو متعلقہ جج کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرتی ہے۔ لیکن مظاہر نقوی کے استعفے کے بعد قانونی سوال کھڑے ہو گئے کہ کیا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
کیونکہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ جج کے ریٹائر ہو جانے کی سورت میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں اورن کونسل نے ان کے خلاف شکایت پر کارروائی نہیں کی۔
ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی تھی اور فیصلہ 2023 میں جاری کیا گیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جون 2023 کے فیصلے پر اپیل دائر کی تاکہ مسئلے کا قانونی حل نکل آئے۔
سماعت کی روداد
بدھ کے روز سماعت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جج کے دوران سروس کیے گئے مس کنڈکٹ پر کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے۔ عدلیہ، عوام اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے۔ عدلیہ بنیادی حقوق کی ضامن ہے اس لیے اسے آزاد ہونا چاہیے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے، اگر احتساب سے اعتراض برتا جائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدلیہ کی آزادی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو خود متحرک ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے۔ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ضروری نہیں کہ ان کی برطرفی کی سفارش کی جائے۔ اگر کوئی جج ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کا علاج ممکن ہے۔ جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے ان کی بنیاد پر کونسل جج کو کچھ عرصے کی رخصت دے سکتی ہے۔ ضروری نہیں برطرف کرے۔‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’وقت کی پابندی نہ کرنے پر جج کے خلاف شکایت ہو تو کونسل برطرفی کے بجائے تنبیہہ کر سکتی ہے۔ کونسل کے سامنے شکایت آجائے تو اس پر کوئی رائے دینا لازم ہے۔ جج ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر، شریعت کورٹ کے ججز یا ٹریبیونلز جیسے آئینی عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ جج کے اوپر لگے الزام پر کونسل اپنی رائے دے تاکہ آئینی عہدوں پر تعیناتی ہو سکے۔ ججز کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس احتساب سے سپریم کورٹ کا وقار کم نہ ہو۔ ججز کے خلاف کارروائی کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا۔ جج کے خلاف کارروائی اس کے حاضر سروس ہونے کے دورانیے سے متعلق شکایت پر ہو سکتی ہے۔ عوامی اعتماد کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو شفافیت سے کام کرنا چاہیے۔‘
جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ ’مثال موجود ہے کہ ایک جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفیٰ پر ختم کر دی گئی۔ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’یہ معاملہ 2019 کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے پانچ سال تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا؟‘ جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’کسی جج کے خلاف کاروائی دوبارہ کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ کونسل کا ہو گا۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہو گا؟ بھارت میں کلکتہ ہائیکورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔‘
عدالتی معاون اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔ جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ہمارے سامنے دو اہم نقاط ہیں، ایک نقطہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کر چکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ دوسرا نقطہ یہ کہ جج ریٹائرڈ کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہے؟
عدالتی معاون شیخ اکرم نے کہا کہ ’یہ نہیں ہوسکتا کہ جج ریٹائرڈ ہو جائے اور 10 سال بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کر دی جائے۔‘
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ’عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے، عافیہ شہربانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے کیخلاف شکایت غیر مؤثر ہوجانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے، اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیر مؤثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائے؟‘
دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی بے معنی ہوجاتی ہے، ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفی دے سکتا ہے۔‘ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہئیں؟‘
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ ’اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو دینا لازم ہے، آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کاروائی کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہوچکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی؟ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفی دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کاروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے عدالتی معاون کو توجیح دی کہ ’آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کاروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہو گی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہوکر گھر جائے؟ جج کی خواہش پر نہیں عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ اگر سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کرے کہ اس نے جج کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟‘
عدالتی معاون نے کہا کہ ’تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اسکی سزا ختم ہوجاتی ہے، سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کاروائی سے روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری ، شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کاروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔‘
عدالتی معاون کے ان دلائل پر جسٹس مسرت ہلالی ریمارکس دیے کہ ’آپ عدالتی معاون ہیں یا وکیل صفائی؟
خواجہ حارث نے جواباً کہا کہ ’ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے۔‘