ناروے کی پاکستانی کمیونٹی میں ایکا نہیں

آج  ناروے آنے والے نئے اور پرانے پاکستانیوں کے دو الگ حلقے ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود تقسیم در تقسیم ہیں۔

اوسلو انٹرنیشنل سکول میں پاکستانی برادری 20 اکتوبر 2023 کو پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے (تصویر: ناروے میں واقع پاکستانی سفارت خانہ/ فیس بک)

ان دنوں میں ایک مطالعاتی تحقیق کا حصہ ہوں اور لگ بھگ ہفتہ وار ناروے میں مقیم پاکستانیوں سے ملاقات ہو رہی ہے۔ ناروے دنیا کے خوش حال ترین ممالک میں سرفہرست ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں رہنے والے 55، 60 ہزار پاکستانی بھی اس خوش حالی کا پھل کھا رہے ہیں۔

ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت 1960 اور 70 کی دہائی کے درمیان آئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ناروے کے شمال میں گہرے سمندر میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد ناروے خوش حالی کی جانب قدم اٹھا رہا تھا۔

ناروے کی خوش حالی کے اس سفر میں محنت مزدوری کا بوجھ  پنجاب کے علاقے کھاریاں، گجرات اور جہلم سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں نے اٹھایا۔

آج ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کو آئے لگ بھگ 60 برس سے زائد ہو گئے ہیں۔ وہ جو 70-1960 کے عشرے میں آئے تھے اب ان کی تیسری نسل بھی جوان ہو رہی ہے۔ جو مزدور آئے تھے ان ہی کے گھروں سے اب انجینیئرز، آئی ٹی کے ماہر اور ڈاکٹرز بھی نکل رہے ہیں، لیکن ناروے میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کی کہانی یہیں تک ختم نہیں ہوتی۔

ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کا ایک نیا ابھرتا ہوا گروہ بھی ہے جسے آپ سنہ 2000 سے شروع ہونے والی نئی صدی کے پاکستانی نارویجن بھی کہہ سکتے ہیں۔

ان پاکستانیوں کی اکثریت ناروے مزدوری کرنے نہیں آئی، یہ تعلیم یافتہ تھے۔ جس جس ہنر کی ناروے میں ڈیمانڈ ہے ان کے پاس وہ ہنر ہے۔ جس زمانے میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ادارہ ایچ ای سی سکالر شپ کے معاملے میں بڑا متحرک ہوا کرتا تھا، اس زمانے میں کئی نوجوان پاکستانیوں نے ناروے کا رخ کیا اور پھر یہیں کے ہو رہے۔

سکالر شپ کے علاوہ بھی چونکہ ایک سال قبل تک ناروے میں یونیورسٹی کی تعلیم مفت تھی اس لیے سیکڑوں وہ ہیں جو تعلیمی ویزے پہ آئے اور پھر یہیں سرکاری یا نجی اداروں میں اچھی پوزیشن کی نوکری مل گئی تو مستقل یہیں کے مکین ہوگئے۔

آج ناروے میں وہ پاکستانی جن کی تیسری نسل بھی جوان ہو رہی ہے، ایک الگ حلقہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے یہاں پورے خاندان آباد ہیں جو کئی گھروں پہ مشتمل ہیں۔

اس پاکستانی کمیونٹی کے افراد پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں تقسیم ہیں۔ اس کمیونٹی کے افراد میں پڑھے لکھے الگ ہیں، ناخواندہ الگ، بزنس والوں کا الگ گروہ ہے، جو نارویجن سیاست میں شامل ہو گئے وہ اپنا الگ حلقہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

اب ذرا دلچسپ بات ہو جائے۔ ناروے میں تین نسلوں سے مقیم پاکستانیوں کے اس دائرے میں وہ پاکستانی شامل نہیں جو گذشتہ 20 برس میں یہاں آئے اور آج محقق، سکالرز، پروفیسرز اور سائنس دان ہیں۔ نئے آنے والے پاکستانیوں کی اپنی الگ دنیا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ دونوں گروہوں کا تعلق پاکستان سے ہونے کے باوجود یہ دو انتہائی مختلف کمیونٹیز ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کو منہ نہیں لگاتے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں۔

سنہ 2000 کے بعد آنے والے پاکستانیوں کو لگتا ہے کہ وہ وائٹ کالر جابز کرتے ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کی اس نارویجن پاکستانی کمیونٹی میں کوئی جگہ نہیں جہاں ٹیکسی ڈرائیورز ہیں، کھانے کے ہوٹل چلانے والے ہیں، جہاں ماضی میں منشیات کے مسائل رہے، جہاں خواتین کم تعلیم یافتہ ہیں اور صنفی تشدد جیسے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

زمانہ حال میں آنے والا پاکستانی ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کی اوورسیز سیاست میں بھی لگ بھگ غیر فعال ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناروے میں نیا آنے والا پاکستانی ان علاقوں سے دور رہتا ہے جہاں نارویجن پاکستانی کمیونٹی کئی دہائیوں سے آباد ہے۔ اس نئی پاکستانی کمیونٹی کے افراد ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ فلاں علاقہ پاکستانیوں کا ہے اور بڑا بدنام ہے، لہذا وہاں کا رخ کرنے سے گریز کرنا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی کوشش رہتی ہے کہ ایسے علاقے میں رہا جائے جہاں نارویجن اکثریت میں ہوں۔

پرانی کمیونٹی کی تقاریب میں نئے پاکستانی ڈھونڈے سے نہیں ملتے جبکہ نئی پاکستانی کمیونٹی کی شاذ و نادر ہی کوئی نمائندہ تنظیم ہے۔

پہلی، دوسری اور تیسری نسل والے پاکستانی نارویجنز کی درجنوں کے حساب سے سماجی تنظیمیں ہیں جن میں آپ کو وہ پاکستانی شامل یا متحرک نہیں ملے گا جو گذشتہ 20 برس کے دوران آیا۔

ابھی کل ہی ناروے میں مقیم اور ظاہر ہے سنہ 2010 میں آنے والی ایک پاکستانی پروفیسر کو یہ کہتے سنا کہ یہاں ناروے میں کتنے ہی پاکستانی سکالرز اور سائنس دان اپنا نام بنا رہے ہیں لیکن یہاں 60 برسوں سے رہنے والی کمیونٹی اس بارے میں لاعلم ہے۔ پرانی پاکستانی نارویجن کمیونٹی ہم نئے آنے والوں کی کامیابی کو اپنانے سے کتراتی ہے۔ وہ ہمارے سامنے خود کو زیادہ نارویجن گردانتے ہیں یا پھر شاید انہیں یقین ہی نہیں کہ کوئی پاکستانی یورپ میں ڈنکی لگائے بغیر یا مزدوری کے علاوہ بھی آسکتا ہے۔

نئے آنے والوں کو یہاں پرانے جمے ہوئے پاکستانیوں سے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملی، کوئی مشترکہ پلیٹ فارم موجود نہیں، نئی تشکیل پانے والی پاکستانی کمیونٹی کی پذیرائی نہیں ہوئی جبکہ ان کی مہارت اور تعلیم سے پرانی کمیونٹی کوئی فائدہ نہ اٹھا سکی۔

رہ گیا ناروے میں پاکستانی سفارت خانہ تو وہاں شاید ان خطوط پہ کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ آج  ناروے آنے والے نئے اور پرانے پاکستانیوں کے دو الگ حلقے ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود تقسیم در تقسیم ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر